جب ہم سنگاپور سے انڈونیشیا کے شہر بالی پہنچے تو یہ سفر کوئی زیادہ طویل نہ تھا، بذریعہ طیارہ پونے تین گھنٹہ لگا اور کچھ اتنا ہی وقت ائیرپورٹ کی کاروائی میں صرف ہوئے، یکے بعد دیگرفارم ہمیں پُر کرنے پڑے، پہلے امیگریشن پھر کسٹم اور آخر میں نیشنل سکیورٹی کا فارم تھا کہ کہیں ہم حکومت کا تختہ اُلٹنے تو نہیں آئے ہیں یا ہمارا تعلق دعش سے تو نہیں، ایئر پورٹ کے عملے میں حجاب زدہ خواتین تھیں جو تعاون کرنے میں کوئی کثر باقی نہیں رکھ رہی تھیں، اُنہیں پتا تھا کہ اصل سیاح ہم لوگ ہیں اور گورے جو یورپ سے بالی جاتے ہیں اُن کا م صرف عیاشی کرنا ہوتا ہے، اِس کی قلعی تو مجھے اُس وقت کھلی جب میں اتفاقا”بالی کے ایک ریسٹورنٹ جسکا نام ہیڈ پوٹاٹو تھا وہاں قدم بوس ہوگیا ۔ اُس کی حالت کچھ ایسی تھی جسے دیکھ کر نیویارک شہر کا نائٹ کلب بھی شرما جائے، ریسٹورنٹ معزز مہمانوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھاجن میں عورتیں اکثریت میں تھیں اور جو تن پوشی کیلئے ڈوریوں کا دوگز زیب تن کی ہوئیں تھیں، رنگ بادامی تھا جو اِس بات کی علامت تھی کہ اُن کا تعلق دنیا کے سب بڑے اسلامی ملک انڈونیشیا سے ہے، سونے پر سہاگا کہ بیٹھنے کیلئے کرسیاں نہ تھیں بلکہ گدّا نما بستر لگا ہوا تھا جس پر ہنسوں کا جوڑا لیٹ کر کش لگارہا تھا،ریسٹورنٹ میں جیسے ہی میں داخل ہوا تو ایک خوبصورت لڑکی نے مجھے ہاتھوں لے کر ریسٹورنٹ کے ایک کونے سے دوسرے کونے کی سیر کرائی اور میں یہ سوچتا رہا کہ آخر یہ ڈوڑی کیوں ہے، بلاشبہ ایک سے ایک خوبصورت دوشیزائیں داد عیش دینے کیلئے وہاں انتظار کر رہی تھیں، لڑکی نے مجھ سے پوچھا کہ اگر میں چاہوں تو وہ مجھے ریسٹورنٹ کی تاریخ سے آگاہ کردے جیسے یہ کوئی بوس و کنار کرنے کا اڈہ نہیں بلکہ کوئی یونیورسٹی ہو،لیکن استقبالیہ کی لڑکی جو میرے لئے ایک خالی گدے کو تلاش کر رہی تھی جس پر کوئی سیکسی پری زاد براجمان ہو لیکن بدقسمتی سے ایسی کوئی جگہ دستیاب نہ تھی ، سارے گدوں پر بوس و کنار کرنے والا جوڑا بیٹھا ہوا تھا، بادل نخواستہ اُس لڑکی نے مجھے کہا کہ اُس کے ریسٹورنٹ کی یہ پالیسی ہے کہ کوئی بھی گاہک مایوس نہ لوٹے ، لہٰذا میں کچھ دیر باہر جاکر ساحل سمندر پر مٹر گشت کروں اور پھر آؤں اور وہ ہمارے لئے کوئی نہ کوئی گدا مع کسی سونے کا بدن رکھنے والی دوشیزہ کے ساتھ ریزرو رکھے گی، میں نے اُس کا شکریہ ادا کرتے ہوے جواب دیا کہ میں انڈونیشیا کے لوگوں کی مہمان نوازی سے بہت متاثر ہوا ہوں۔لوگ کہتے ہیں کہ انڈونیشیا کا شہر بالی بندروں کا شہر ہے. راہ چلتے لوگ اِس کی زد میں آجاتے ہیں اگر کوئی بندر کسی راہگیر کے ساتھ چلنا شروع کردے تو اُسے اِس خوش فہمی میں مبتلا نہ ہو جانا چاہیے کہ وہ اُس کا دوست بن گیا ہے. بندر جھپٹے مارنے کیلئے پر تول رہا ہوتا ہے، کوئی چیز اُس کی ضرورت کیلئے ہو یا نہ ہو، مثلا”بندر آپ کی عینک بھی لے کر بھاگ سکتا ہے، بندر سے اپنی عینک واپس لینے کیلئے اُسے کچھ کھانے کی چیزیں پیش کرنا ہوں گی ، جب وہ آپ کی عینک چھوڑ کر کھانے کی چیز پر جھپٹے گا اگر اُسے کھانے کی کوئی چیز کچھ دیر تک نہ ملی تو وہ آپ کی عینک کو دس ٹکرے کرکے پھینک دیگا، ہرچند بھارت اور انڈونیشیا کی کوئی زمینی سرحد تو نہیں ملتی لیکن سمندری سرحد کا سنگم بھارت کو انڈونیشیا کا ایک پڑوسی ملک بنادیا ہے، قطع نظر اِس کے مذہبی طور پر بھی انڈونیشیا اور بھارت میں بہت ساری باتیں مشترک ہیں،مثلا”بالی جہاں میں سیاحت کیلئے گیا تھا اُس صوبے کی اکثریت ہندوؤں پر مشتمل ہے، اور یہ ہندو ہزاروں سال سے وہاں آباد ہیں، بالی ٹیمپل کا شہر بھی کہلاتا ہے جہاں ہزاروں کی تعداد میں ہر گلی کوچہ میں ہندوؤں کی مندریں نظر آتی ہیں۔اِس حقیقت کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ چودہویں صدی کے اوائل میں ایودھیا کے تخت کے اصل وارث راما کو اندرونی سازش کے ذریعہ جلاوطنی پر مجبور کردیا گیا تھا. وہ اُس کی بیوی سیتا اور بھائی لکسمانا ایک جنگل میں پناہ لی تھی. جنگل میں بدروحوں کا سربراہ راہوا نا کو اُن کی موجودگی کا علم ہوگیا اور وہ سیتا کی خوبصورتی دیکھ کر پاگل ہوگیا اور اُسے حاصل کرنے کی کوشش شروع کردی . سیتا کی شادی چھ سال کی عمرمیں راما سے ہوگئی تھی،بدروحوں کے سربراہ نے ایک ترکیب سوچی اور اپنے وزیراعظم ماریکا کو جادو کے ذریعہ ایک سنہرے رنگ کی خوبصورت ہرن میں تبدیل کردیا،ماریکا جو خوبصورت ہرن کے بھیس میں تبدیل تھا راما اور اُس کے بھائی کو بہلانے پھسلانے میں کامیاب ہوگیا اور وہ دونوں سیتا سے جدا ہوگئے اور اُن کی عدم موجودگی میں بدروحوں کا سربراہ راہوانا سیتا کو اغوا کرکے اپنے محل لے گیا، راما اور اُس کے بھائی کو جب اِس سازش کا علم ہوا تو وہ سیتا کو بدروح کے سربراہ سے آزاد کرانے کی ترکیب سوچنے لگے، اُنہوں نے بندروں کی ایک فوج ہنومان کے ماتحت تیار کی . گھمسان کی جنگ کے بعد اُنہوں نے راہوانا کے محل کو قبضہ کرلیا اور راہوانا کو موت کے غار میں دھکیل کر سیتا کو آزاد کرالیا. واضح رہے کہ سیتا راہوانا کے محل میں پندرہ سال تک رہی تھی۔شاید یہی وجہ ہو کہ بھارت اور انڈونیشیا میں تجارتی تعلقات انتہائی مستحکم ہیں، انڈونیشیا بھارت کو سالانہ 25 بلین ڈالر کا خام مال بر آمد کرتا ہے جس کے مقابلے میں دس بلین ڈالر کی مختلف اشیا درآمد کرتا ہے، بنگلہ دیش بھارت کا ایک بڑا اتحادی سالوں سال کی جدوجہد کے بعد ایک بلین ڈالر کی اشیا بھارت کو برآمد کرتا ہے ، جبکہ بھارت کی جانب سے بنگلہ دیش کو برآمد کی جانے والی اشیا دس بلین ڈالر کے برابر ہے، انڈونیشیا کے صدر جوکو ویدیدو اور دو نائب صدر سب کے سب مسلمان ہیں۔