کامن ویلتھ گیمز میں پاکستان کا صرف چند میڈلز کا جیتنا ایک افسوسناک امر سے کم نہیں، بھارت نے کُل 58 میڈلز سے زائد جن میں 20گولڈ15 چاندی اور 23 برونز جیت کر ایک قابل دید مثال قائم کی ہے، جبکہ اِس کے مقابلے میں پاکستان کی ٹیم صرف 8میڈلز جن میں ایک نوح دستگیر بٹ کو ویٹ لفٹنگ ارشد ندیم کو جیولن تھرو ایونٹ میں گولڈ میڈل اور دوسرے سلور اور برانز جیت سکے ہیں، تاہم اِس قلیل سی جیت کو بھی پاکستان کی حکومت نے سر پہ اٹھالیا ہے اور فورا”میڈل جیتنے والوں کیلئے بھر پور انعامات کا اعلا ن کردیا ہے، گولڈ میڈل جیتنے والے نوح دستگیر بٹ اور ارشد ندیم کو پچاس لاکھ روپے نقد ملیں گے جس سے شاید وہ پنجاب کے کسی گاؤں میں ایک چھوٹا سا مکان یا ایک نئی گاڑی خرید سکیں گے جبکہ سلور میڈل جیتنے والے کو 20 لاکھ اور برانز کو 10 لاکھ روپے بالترتیب ملیں گے . شاید وہ اِس رقم سے گائے اور بیل یا موٹر سائیکل خرید سکیں۔
کامن ویلتھ گیمز جو برمنگھم ، انگلینڈ میں منعقد ہوا اُس میں شرکت کیلئے پاکستان اسکواڈ میں 68 ایتھلیٹس جن میں 25خواتین شامل مقابلے کیلئے گئیں تھیں، پاکستان کو جن میچوں میں حصہ لینا تھا اُن میں ایتھلیٹکس ، بیڈمنٹن ، باکسنگ ، کرکٹ ، جمناسٹکں، جوڈو، اسکواش، ہاکی، سوئمنگ، ٹیبل ٹینس، ریسلنگ اور ویٹ لفٹنگ شامل تھیں۔افسوس کی بات یہ ہے کہ کرکٹ کے کھیل میں پاکستان کی ٹیم کی انتہائی کامیابی کے باوجود خواتین کے میچ میں اُسے نہ صرف بھارت کی ٹیم سے شکست کا سامنا کرنا پڑا بلکہ خواتین کی کرکٹ ٹیم نے جس کسی دوسرے ملک کی ٹیم کے ساتھ میچ کھیلا اُس میں وہ شکست سے دوچار ہوگئی اگر پاکستان کی خواتین کرکٹ ٹیم کا معیار اتنا پست تھا تو اُسے مقابلے میں شرکت کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہ تھی،شکست شرمناک تھی، اِس کی چہ مگوئیاں ساری دنیا میں ہونے لگیں، بھارت کے ایک اخبار نے یہ سرخی لگائی کہ آیا پاکستان کی ٹیم کے 68 ایتھلیٹس انگلینڈ کھیلوں میں حصہ لینے گئے تھے یا ڈبل روٹی کھانے. دوسرے اخبار نے یہ تحریر کیا کہ اگر پاکستان کے ایتھلیٹس کو کوئی میڈل نہیں مل رہی ہے تو اِس میں کیا مضائقہ بھارت کی ٹیم کو اِسے چند میڈل دے دینا چاہئے یہی وجہ ہے کہ جب نور دستگیر بٹ نے پاکستان کے پہلی میڈل جیتی تو جس نے اُنہیں سب سے پہلے مبارکباد ی دی وہ تھی بھارت کی سُپر اسٹار گولڈ میڈلسٹ ویٹ لفٹر میرا بائی چانو ،پاکستان کو جس کھیل کے مقابلے میں میڈلز جیتنا تھا وہ اُس کی حریف ٹیم کے کھلاڑی لے جارہے تھے۔ مثلا”بیڈمنٹن کے کھیل میں ملیشیا نے انگلینڈ کو بھی پیچھے چھوڑ کر 3 گولڈ اور ایک طلائی جیت کر ریکارڈ قائم کر دیا، اسکواش کے کھیل میں پاکستان کا نام ہمیشہ بلند رہا ہے لیکن اِس دفعہ کے مقابلے میں نیوزی لینڈ کے کھلاڑی نے انتہائی اطمینان کے ساتھ گولڈ اور بھارت نے برانز جیت لیا ہے۔ ہاکی کے مقابلے میں پاکستان آسٹریلیا سے 7 گول سے ہار گیا اور ایک گول بھی نہ کرسکا،بھارت کو صرف ریسلنگ میں 6 میڈلز ملے جن میں 3 گولڈ شامل تھے،باکسنگ میں بھارت کی ایک مسلمان باکسر نگہت زریںنے گولڈ میڈل جیت کر تہلکہ مچا دیا ہے۔
کامن ویلتھ گیمز میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے جیالوں کو اپنی صلاحیتوں کے مظاہرے کا کوئی موقع دستیاب نہیں ہوسکاکیونکہ مردوں کی کرکٹ کھیل کا انعقاد تا ہنوز مقابلے میں شامل نہیں، ایک طویل عرصہ قبل یعنی 1998 ء میں کرکٹ کا مقابلہ ہوا تھا، لیکن اُس کے بعد دلچسپی کے فقدان کی وجہ کر کرکٹ کو مقابلے سے آؤٹ کر دیا گیا ہے تاہم اِس سال سے خواتین کرکٹ ٹیم کو انتہائی جوش و جذبہ کے ساتھ
مقابلوں میں شامل کر دیا گیا ہے۔مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے کامن ویلتھ گیمز میں اپنی موجودہ شکست پر پردہ ڈالنے کیلئے اِس بات کی پرچار کر رہی ہے کہ اُس کی ٹیم سال 1962 کے کامن ویلتھ گیمز میں 8 گولڈ اور ایک برانز میڈل جیتی تھی، حکومت کو یہ بھی باور کرا دینا چاہیے کہ اُس وقت پاکستان میں حکومت ایک مرد آہن فوجی ایوب خان کی تھی۔
پاکستان کے عوام کو اپنی اِس عادت بلکہ روایت کو بھی فراموش کر دینا چاہیے کہ کسی بھی اولمپکس یا کامن ویلتھ یا کسی اور ٹورنامنٹ میں اُن کا مقابلہ صرف بھارت سے ہوتا ہے، اور اگر وہ بھارت کو شکست دے دی تو پھر کھیل ختم ہوجاتا ہے، اِس غیر حقیقی انا کی بجائے اُن کا مطمع نظر ہمیشہ یہ ہونا چاہیے کہ صرف بھارت بلکہ اُنہیں دنیا کے کسی بھی ملک کو شکست دے کر سب سے اول مقام پر جانا ہے،سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی اسکواڈ میں 68 ایتھلیٹس شامل تھے جن میں سے صرف 7 یا 8 میڈلز
جیت سکے باقی صرف سیر و تفریح کیلئے برمنگھم گئے تھے اور یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ اِس اسکواڈ کے نصف
سے زیادہ ایتھلیٹس آئندہ کسی مقابلے میں اپنی شکل نہیں دکھائیں گے، جسکا مختصر مطلب یہ ہے کہ کسی مقابلے میں ایتھلیٹس کے انتخاب اُن کی صلاحیت کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا ہے بلکہ سفارش اور اقربا پروری کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے۔
بھارت کا کامن ویلتھ گیمز کے مقابلے میں میڈل جیتنے کا رینک چوتھا رہا ہے ، آسٹریلیا 177 میڈلز جیت کر سر فہرست ہے، پاکستان کے تمام ایتھلیٹس کا یہ شکوہ ہے حکومت اُن کی سرپرستی نہیں کرتی ہے ، اور اُنہیں یورپ یا امریکا مزید تربیت کیلئے نہیں بھیجتی . سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خواتین کی کرکٹ ٹیم کو باہر بھیجنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ اپنے ملک میں ایک سے ایک تجربہ کار با صلاحیت کرکٹ کے کھلاڑی موجود ہیں۔