چند دن پہلے، اسلام کے مشعل برداروں کے سالانہ اجتماع کی صدائیں امریکہ کے تاریخی شہر فلاڈیلفیا کی فضاں میں انتہائی متاثرکن انداز سے گونجیں توان میں سے سب سے توانا آواز مونا کے صدر، مولانا دلاور حسین کی تھی۔ فرما رہے تھے کہ مولانا مودودی ، سید قطب ، امام حسن البنا اور علامہ سعید نورسی کی فکر کے حامل، بنگلہ دیشی نژاد امریکی، ہر سال ہزاروں افراد کے اس کنونشن کا انعقاد کرکے تحریکی فکر کو اجاگر کرتے ہیں۔مغربی پاکستان میں رہتے ہوئے اپنے مشرقی بازو کی خامیوں اور خوبیوں کا کچھ زیادہ اندازہ نہیں تھا۔ امریکہ پہنچے تو پتہ چلا کہ ہمارے مشرقی حصہ کے عوام، اپنی سیاسی سمجھ بوجھ میں ہم سے کافی آگے ہیں۔ تاریخی لحاظ سے بھی قیامِ پاکستان کیلئے سب سے زیادہ جدوجہد کرنے والی سیاسی جماعت کل ہندمسلم لیگ کا قیام ڈھاکہ میں عمل میں آیا تھا۔ یہ مشرقی بنگال کے رہنما ہی تھے کہ جن کی سوجھ بوجھ نے مسلمانوں کے مستقبل کیلئے ایک ایسا سیاسی لائحہ عمل تیار کیا جس کے ذریعے مسلمان اقلیت کے حقوق کی حفاظت کرنا آسان ہوگیا۔ میں جب مغربی پاکستان کی گیریژن اسٹیٹ نے سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والی اس بنگالی اکثریت کو پاکستان کا غدار قرار دے کر علیحدہ کردیا تو یقینا یہ ایک سانحہ عظیم تھا۔ نئی ریاست بنگلہ دیش وجود میں آئی اور آجکل وہاں کے باسی، اپنے پرانے ہم وطنوں سے زیادہ ترقی کر رہے ہیں۔ یہاں راجیش ریڈی کا یہ شعر!
بالکل سچا لگتا ہے کہ
بجھ کے بھی جن کی یہاں روشنی رہ جاتی ہے
ان چراغوں کو ہوا دیکھتی رہ جاتی ہے
انہی چراغوں نے اب امریکہ کے ایوانوں میں روشنیاں پھیلانے کا کام شروع کیا ہوا ہے۔ مونا کنونشن کے کتابچہ اور پروگرام کے ہدایت نامے میں نیویارک کے منخب نمائندگان کے پیغامات چھپے ہوئے دیکھے تو ان میں ایک نام کونسل ممبر شاہانہ لطیف کا بھی نظر آیا۔ ان بنگلہ دیشی نژاد امریکی خاتون نے اپنے پیغام میں نہ صرف مونا کی خدمات کا ذکر کیا ہے بلکہ مسلمانوں کیلئے ان کا یہ پیغام بالکل کسی تحریکی رہنما کا تحریر کردہ پیغام لگتا ہے۔ اسی طرح جب میری ملاقات ہیمٹریمک (مشیگن)سے آئے ہوئے امام عبداللطیف عزام سے ہوئی تو انہوں نے اپنے علاقے میں ہونی والی مسلم کمیونٹی کی سیاسی ترقی کا ذکر کیا۔ ہیمٹریمک، امریکہ کا وہ شہر ہے جہاں اذان، مسجد کے لاڈ اسپیکر کے ذریعے سڑکوں پر بھی سنی جا سکتی ہے۔ نیو یارک کے بعد شاید بنگلہ دیشی نژاد امریکیوں کی سب سے بڑی تعداد وہیں رہتی ہے۔ صدر ٹرمپ نے مشیگن کی اسٹیٹ مسلمانوں کے بلاک ووٹوں کی وجہ سی ہی جیتی تھی۔ اب نیویارک مئیر کے انتخاب میں ظہران ممدانی کی حمایت میں سب سے زیادہ بنگلہ دیشی کمیونٹی ہی نمایاں ہے۔ کسی نامعلوم شاعر نے صحیح کہا ہے کہ!
جنہیں حقیر سمجھ کر بجھا دیا تو نے
وہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی
چند سال پہلے جب مونا نے اپنے سالانہ کنونشن کو فلاڈیلفیا کے کنونشن سنٹر میں کرنا شروع کیا تو ان کیلئے یہ بہت بڑا چیلنج تھا۔ بڑی اور نمایاں جگہ پر اخراجات بھی کافی ہوتے ہیں۔ کنونشن کی آمدن کا ایک بڑا حصہ کنونشن کے بازار سے جمع کیا جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ اس پہلے کنونشن میں بازار کا سائز بہت چھوٹا تھا۔ امریکہ کی بڑی تنظیموں میں سے صرف زکوا فانڈیشن نے ہی مونا کے کنونشن کیلئے بڑی اسپانسرشپ دی تھی۔ اس سال الحمد للہ کنونشن بازار میں تقریبا تمام بڑی تنظیمیں اور وینڈرز موجود تھے۔ اپنے بنگلہ دیشی ساتھیوں کی مہمانداری بھی شاندار رہی۔ خندہ پیشانی سے ملنا اور تکریم کرنا ان کا شیوہ رہا۔ مونا کنونشن کی اس کامیابی کو دیکھتے ہوئے، میں نے چند اردو دان ذمہ داران تک کامل شطاری کا یہ شعر پہنچایا کہ
کیا پوچھتے ہو مجھ سے مرے دل کی آرزو
اب میری ہر خوشی ہے تمہاری خوشی کے ساتھ
مونا کنونشن میں خواتین و حضرات کے پروگرام علیحدہ علیحدہ رکھے گئے تھے۔ یوتھ سیشنز میں بھی اسی اصول پر عمل ہوتا رہا۔ اس علیحدگی کے فوائد تو مونا کے ذمہ داران ہی زیادہ بہتر بتا سکتے ہیں لیکن اکنا کنونشن چونکہ ان مراحل سے گزر چکا ہے، اس لئیے یہ پیش گوئی کی جاسکتی ہیکہ بتدریج اصناف کی یہ سخت علیحدگی ختم ہو جائیگی۔ لگتا ہے کہ اسلامی تعلیمات کی بجائے ہماری برِ صغیر پاک و ہند کی تہذیب نے ہمیں علیحدگی کی یہ سختی عطا کی تھی اور اب چونکہ یہاں مغرب کی تہذیب غالب ہے اس لیئے اس قسم کی تبدیلیاں برداشت کی جارہی ہیں۔ اکبر نے شاید اسی لیئے تو یہ طنزیہ اشعار کہے تھے،
عشرتی گھر کی محبت کا مزا بھول گئے
کھا کے لندن کی ہوا عہد وفا بھول گئے
پہنچے ہوٹل میں تو پھر عید کی پروا نہ رہی
کیک کو چکھ کے سوئیوں کا مزا بھول گئے
بنگلہ دیش کے سیاسی انقلاب کے بعد مونا کے اس کنونشن کے شرکا خوش تو نظر آئے لیکن مستقبل کے بارے میں متفکر بھی کافی زیادہ تھے۔ ایک سیشن میں نقیب الرحمان اور بیرسٹر حامد آزاد نے ہندوتا کی جارحیت کو اپنے ملک کیلئے ایک بہت بڑا خطرہ قرار دیا۔ امریکہ اور بنگلہ دیش کے تعلقات بھی زیرِ بحث آئے۔ چین سے مقابلے کی وجہ سے امریکہ بھی بنگلہ دیش پر آجکل کافی مہربان نظر آتا ہے۔ اگلے سال آنے والے عام انتخابات کی تیاریاں بھی جاری ہیں۔ جماعت اسلامی، بی این پی اور عوامی لیگ کے ساتھ اب انقلاب لانے۔ والے طلبا کی پارٹی بھی مقابلہ میں موجود ہوگی۔ یہی لگ رہا ہے کہ عوامی لیگ کو چھوڑ کر باقی جماعتوں کی ایک مخلوط حکومت ہی تشکیل دی جائے گی۔ احمد ندیم قاسمی نے بھی کیا خوب دعا کی تھی۔
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل ، جسے اندیشہ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے، وہ کھلا رہے صدیوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
٭٭٭













