خالصتان سے کشمیر تک!!!

0
54
کوثر جاوید
کوثر جاوید

امریکہ میں جو بھی قومیں آئیں ان کو ابتدائی دنوں میں خوب مشکلات کا سامنا کرنا پڑا آج سے ستر سال قبل یہودیوں کو امریکہ میں بہت زیادہ امتیازی سلوک کا سامنا کنا پڑا۔ ہوٹلوں میں اور تفریح گاہوں میں ان کا داخلہ ممنوع تھا جہاں بھی جاتے مقامی لوگ ناپسند کرتے یہودیوں نے منصوبہ بندی کی کہ کس طرح امریکہ میں کامیابی حاصل کرنا ہے انہوں نے تانگہ یعنی بگیوں کا کاروبار شروع کیا تانگا گھوڑا چلانا شروع کردیا آہستہ آہستہ ٹرانسپورٹیشن گاڑیاں اور پھر دیگر ذرائع ٹرانسپورٹ ذرائع پر عبور کرنے کے بعد اپنی نئی نسل کو قانون کی تعلیم ،ڈاکٹری سیاسی تعلیم دلانا شروع کردی آہستہ آہستہ ترقی کرتے کرتے آج دنیا کی جو ٹیکنالوجی ہے اس کا ہیڈ کوارٹر یہودیوں کے پاس ہے امریکہ میں ہر شعبے پر عبور حاصل ہے۔اسی طرح دیگر قومیں چائنیز، کو رینز ، انڈینز حتیٰ کہ فلسطین کے لوگ آج تعلیم یافتہ ہیں جنھوں نے پیشہ ورانہ انداز میں امریکہ میں فلسطین کا مسئلہ اُجاگر کر دیا۔ امریکہ میں سکھوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہ لیکن آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے لوگ تعداد میں سکھوں سے زیادہ ہیں۔ انڈیا میں سکھوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ جو ظلم قتل و غارت ہو رہی ہے اس سے پوری دنیا واقف ہے کہ کس طرح سکھوں کی عبادت گاہ میں سکھوں کو قتل کیا، ابھی تک ظلم ہو رہا ہے۔ اس وقت سے سکھوں نے اپنا علیحدہ وطن کا مطالبہ کر دیا۔ انڈین آ رمی اور حکومتیں جس طرح کشمیر میں مسلمانوں کا قتل عام، ظلم اور بربریت کررہے ہیں، اس کی بھی مثال دنیا بھر میں نہیں ملتی لیکن سکھوں نے اپنی جدوجہد اور قربانیوں ، لگاتار محنت سے ثابت کردیا ہے، خالصتان قائم ہو کر رہے گا گزشتہ چند سالوں سے امریکہ کینیڈا میں جس طرح خالصتان کی آزادی ریفرنڈم اور احتجاج کررہے سکھ ایک طاقت بن گئے ہیں۔اس ہفتے 17اگست کو کیپٹل ہل پر ہزاروں کی تعداد میں سکھوں نے ریفرنڈم میں ووٹنگ کا حق استعمال کیا اور پر امن احتجاج کیا یوں محسوس ہو رہا تھا خالصتان کی آزادی بالکل قریب ہے سکھ رہنما گرپنت سنگھ پنوں کی سربراہی میں یہ احتجاج اس قدر موثر ثابت ہو رہا ہے کہ مودی سرکار کی چولیں ہلنا شروع ہو گئیں ہیں احتجاج اور ریفرنڈم کے ساتھ ساتھ کیپٹل ہل پرسکھ کاکس کا قیام عمل میں ہے جس میں پچاس کے قریب امریکی اراکین کانگریس اور سینٹر شامل ہیں اس کے ساتھ کشمیر کے لوگ کشمیر کی آزادی کے لئے امریکہ میں کام کررہے ہیں نہ تو کبھی بیس سے زیادہ لوگ احتجاج میں شامل ہوئے اور نہ ہی کبھی انسانی حقوق کانگرشنل ہیرنگ میں ان کا کوئی کردار ہے ان خود ساختہ کشمیری لیڈروں کے ذاتی تقریبات میں سینکڑوں لوگ ہوتے ہیں لیکن جب کشمیر کے بارے میں با ت کرنے کی بات آتی ہے یہ کبھی بھی پچاس سے زیادہ لوگوں کو اکٹھا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے نہ کبھی پلاننگ کے تحت کیپٹل ہل پر کام ہے اور نہ ہی کمیونٹی کی حیثیت سے ان کی کارکردگی ہے جب کبھی آزاد کشمیر سے پاکستان سے کوئی رہنما آئے تو اس موقع پر سب لیڈر تقریریں بھی کرتے ہیں اور بھڑکیں بھی مارتے ہیں پھر لمبی تان کر سو جاتے ہیں کشمیر میں جس طرح انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں دنیا میں مثال نہیں ملتی لیکن امریکہ میں کشمیری رہنما مظلوم کشمیریوں کے ساتھ مخلص نظر نہیں آتے کم از کم سکھوں سے ہی سبق حاصل کریں اور سیکھیں کہ امریکہ میں کس طرح کشمیر کی آزادی کے لئے کام کرنا ہے ۔ نئی نسل اور خواتین کو کیسے ساتھ ملا کر اپنے مطالبات کے بارے بتانا ہے گزشتہ تیس سالوں سے امریکہ میں کشمیریوں کی کئی تنظمیں تو بن گئیں لیکن کسی کا ایک ممبر ہے اور چیئرمین ہے اور کسی تنظیم دس ممبران ہیں سب عہدیدار ہیں جو ہر مہینے میں ایک دفعہ اکٹھے ہو کر تصویریں بنا کر مختلف زاویوں سے میڈیا پر نشر کردیتے ہیں امریکہ میں تمام تر حالات کے باوجود آج بھی سپیچ فریڈم کی پاسداری کی جاتی ہے لیکن یہاں فری لنچ نہیں ہے لابنگ اور ووٹ کے ساتھ مسلسل جدوجہد کامیابی کی ضمانت ہے ۔ سکھوں کا خوبصورت پیشہ ورانہ انداز دیکھ کر خوشی محسوس ہوئی کہ ان لوگوں نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں واقعی تعریف کے قابل ہیں جو بھی جس قوم مذہب سے تعلق رکھتا ہو اس کی کامیابی سے سیکھنے میں حرج نہیں یہ ہماری کشمیری بھائیوں سے درخواست ہے چابی کا انتظار کئے بغیر ایک منصوبہ بندی کے تحت کشمیر کے بارے میں حکمت عملی بنائیں اور اس کاررواں میں نئے لوگوں اور نئی نسل کو شامل کریں تاکہ دنیا کہ پتہ چلے کشمیریوں کے ساتھ زبانی یکجہتی نہیں ہے حقیقی منعوں میں سنجیدہ جدوجہد ہے۔

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here