قیامت کی گھڑی، خود غرض حکمران!!!

0
299
جاوید رانا

ہم اپنا کالم لکھنے بیٹھے ہیں تو وطن عزیز کی ابتر سیلابی صورتحال پر ہمیں غالب کا شعر مسلسل پریشان کر رہا ہے، آئے ہے بیکسیٔ عشق پہ رونا غالب، کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد، ممکن ہے بعض قارئین بے کسی عشق پر تحفظات کا اطہار کریں کہ وطن عزیز پر 30 برسوں کی شدید ترین و خوفناک ترین سماوی افتاد و تباہی کا عشق سے کیا تعلق تو عرض یہ ہے کہ عشق محض گُل و بلبل یا محبوب کے عشوے و غمزے تک ہی نہیں یہ آفاقیت اور ذاتیات کے ناطے سے ملکیت و تعلق سے بھی عبارت ہے۔ حالیہ سیلاب سے اب تک 20 لاکھ ایکڑ فصلوں کی تباہی 20 سے 30 ہزار لوگوں اور گھروں کی محرومی، مال و مویشی کا خاتمہ بے کسی عشق و تعلق ہی تو ہے اور اس بے کسی میں سیاست، مفاداتی کردار اور الزام تراشی کا طوفان نہ صرف خود غرضی، نا اہلی اور خلق خدا سے کسی ظلم کے سواء ہر گز کوئی نیک شگون نہیں۔ اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ مون سون کے پیریڈ میں بارشوں اور گلیشیئرز کے پگھلنے کے سبب نیز مقبوضہ کشمیر سے نکلنے والے پنجند سے نکلنے والے مون سون کے اضافی پانی کے بھارت میں اختیار ہونے اور پاکستان کے نشیب میںہونے کے سبب ہر سال یہی ہوتا ہے کہ بھارت اسپل ویز کھول دیتا ہے اور پاکستان کو سیلابی صورتحال کا سامنا ہوتا ہے۔ اس سال تو 10 مئی کی بدترین شکست و دنیا بھر میں ہزیمت کے نتیجے میں بھارت نے پاکستان دشمنی میں آبی جنگ کا مظاہرہ اضافی پانی چھوڑ کر کیا ہے، ایک بھارتی ذمہ دار عہدیدار نے تو واضح کر دیاکہ ہم اضافی پانی چھوڑتے ہیں کہ پاکستان سیلابی تباہی سے دوچار ہو اور پانی روکتے ہیں کہ پاکستانی زراعت و فصلیں بانجھ ہوں۔ بھارتی عہدیدار کی یہ منطق پاکستان دشمنی تو ہے لیکن عقلی طور پر دیکھا جائے تو بھارت یہ اقدام اپنے حفظ ماتقدم کے طور پر سیلابی صورتحال کے تدارک کیلئے بھی کرتا ہے جو اس کا حق بنتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کے ارباب اختیار و اقتدار گزشتہ تین عشروں سے بھی ان حالات کے پیش نظر اور گزشتہ کئی عشروں سے موسمی تبدیلیوں کی پیشگوئیوں اور وارننگز کے باوجود مطلوبہ اقدامات و عمل سے کیوں لاپرواہ اور بے عمل رہے۔ ہم نے اپنے ایک کالم میں عرض کیا کہ پاکستانی قوم، ریاست، حکومت، سیاسی اشرافیہ اور انتظامیہ کا وطیرہ ہے کہ سرپر ڈنڈا پڑے تو انہیں احساس ہوتا ہے، فوری اجلاس ہوتے ہیں منصوبے بنائے جاتے ہیں، اعلانات کئے جاتے ہیں، اور بڑے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں لیکن عمل ندارد۔ ملک کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہر دور میں یہی صورتحال نظر آتی ہے۔ قدرتی آفات ہوں یا دیگر مشکلات درپیش ہوں صورتحال یکساں ہی نظر آتی ہے۔ مشکل سے نکلنے کیلئے پھر انہیں ہی دعوت دی جاتی ہے جو اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ سیاسی حکمران و اشرافیہ محض نعرہ بازی، مفادات سے باہر آنے پر تیار نہیں ہوتے، غیر جانبداری سے کہا جائے تو ہر دور کی کہانی ایک ہی ہے۔ ان سب کا منشور ہے مال کمائو عیش اُٹھائو، اور جان بنائو۔ ماضی کے دیگر حالات و واقعات سے گریز کرتے ہوئے ارضی و سماوی آفات کے حوالے سے اور حالیہ صورتحال کے حوالے سے نظر ڈالیں تو مفادات و اغراض اور نعرہ زنی کے سواء کوئی عمل نظر نہیں آتا ہے۔ 2005ء کے زلزلے کے نتیجے میں قائم کردہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ محکمہ کے حوالے سے قدرتی و ارضی آفات کا معاملہ، گلوبل وارمنگ کا ڈویژن یا وزارت ہو یا دیگر محکمے وقت سے پہلے کوئی پیشگی اور معتمد اقدامات نہیں آئے، منصوبہ بندی کا ڈول ڈالا گیا، دعوے کئے گئے، ماہرین کی جگہ من پسندوں کی تقرریاں کی گئیں اور نتیجہ ڈھاک کے تین پات یعنی وقت پڑنے پر بھاگ دوڑ اور متاثرین کو دلاسے، تسلیاں اور وعدوں سے بہلا دیا گیا۔ ہر مشکل گھڑی میں جو بیرونی امداد آئی یا کمنٹمنٹس ہوئے وہ آپس میں تقسیم ہو گئی یامتعلقہ ممالک یا اداروں سے حکمرانوں اور افسر شاہی کے کردار کی بدولت مؤخر یا منسوخی پر انجام پذیر ہوئیں۔
موجودہ سیلابی قیامت سے قبل جولائی میں کے پی میں جو تباہی و کیفیات اور نقصانات ہوئے ان کا ذکر تو ہم تفصیل سے کر چکے ہیں، وہاں بھی وفاق اور صوبے کے درمیان خدمت اور امدادی و فلاحی کاروباری کے برعکس سیاسی چشمک و اختلاف کا عنصر کار فرما رہا لیکن پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں جو تقریباً ڈوب چکا ہے یعنی دو تہائی ڈوب چکا ہے اس میں کرپشن، بے قاعدگیوں خصوصاً روڈا کے کردار، راوی پر پارک ویو اور دیگر پروجیکٹس اور راوی کے حوالے سے جو نفرت انگیز و کرپشن کے حقائق سامنے آئے ہیں ان کی تفصیلات تو آپ تک پہنچ چکی ہیں، حکومتی اقدامات اور مریم نواز کی خود ستائش کی حرکات نہ صرف امدادی کارروائیوں اور متاثرین کی تضحیک ہے بلکہ دیگر سیاسی، سماجی، مذہبی و فلاحی جماعتوں کی امدادی جدوجہد میں رکاوٹ اور نا انصافی ثابت ہوئی ہیں، امدادی سامان اور مراکز پر مریم نواز و نوازشریف کی تصویروں کی پخ خود غرضی اور شو بازی تو منفی تاثر ہے ہی دیگر اداروں و تنظیموں کی امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹ اور انسانیت دشمنی کے مترادف ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان حرکات پر ن لیگ والوں خصوصاً وزیرا علیٰ صاحبہ کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے، ہمارا تجربہ و مشاہدہ تو یہ بھی ہے کہ حکومتوں کو بیرونی ممالک، اداروں اور بیرون ملک پاکستانیوں سے جو امدادی رقوم موصول ہوئی ہیں وہ حکومتی اشرافیہ، افسر شاہی و ہرکاروں میں تقسیم ہو جاتی ہیں اور متاثرین و حقدار محروم ہی رہتے ہیں۔ ہمارا مشورہ ہے کہ متاثرین کی مدد اور بحالی کیلئے مخیر افراد و تنظیمیں اور ادارے اپنے علاقوں، اداروں میں امدادی اقدامات انجام دے کر متاثرین کی بحالی کیلئے متحرک ہوں۔ سرکار کی امداد تو ذاتیات اور تشہیر پر ہی خرچ ہونی ہے اور متاثرین بے نیل و محروم ہی رہیں گے۔ ہمارا اندازہ تو یہ بھی ہے کہ عالمی اداروں کی پیشگوئیوں اور وارننگ کے مطابق آفاقی و موسمیاتی آفات و مشکلات جاری رہیں گی لیکن کوئی بھی حکومت ہو، اس حوالے سے پیشگی اقدامات و تحفظاتی عمل پر توجہ نہیں دے گی کہ ان کی اولین ترجیح مال بنائو، عیش اُٹھائو ہے۔
٭٭٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here