اخلاق کیا ہے؟
ربیع الاوّل کا مہینہ شروع ہوگیا ہے اس مہینے میں ایک ایسی شخصیت اس دنیا میں تشریف لائی جس کو اللہ نے عالم اسلام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے چنا۔ آپۖ دنیا میں یہ پیغام لے کر آئے کے اللہ ایک ہے ہم کو اسی کی عبادت کرنی ہے اور انسان کو دین کے فرائض کیسے ادا کرنے ہیں اس کے علاوہ اخلاق وتہذیب کا سبق آپ نے پڑھایا دنیا جہالت کے اندھیرے میں ڈوب ہوئی تھی آپۖ نے تاریک راستوں میں اللہ کے نام سے روشنی کی اب یہ عام انسانوں پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ اس مشعل راہ سے اپنی زندگیوں میں اُجالا کرتے ہیں کہ نہیں آپ نے جہاں لوگوں کی زندگی میں دوسری تعلیمات دیں ،یہ بھی بتایا کے آدمی اخلاق حسنہ اختیار کرے اور برُے اخلاق سے اپنی حفاظت کرے ،آپۖ نے فرمایا تم میں سے اچھے وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا قیامت کے دن مومن کی میز ان عمل میں سب سے زیادہ وزنی اور بھاری چیز جو رکھی جائے گی وہ اس کے اچھے اخلاق ہوں گے۔بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! انسان کو جو کچھ عطا ہوا ہے اس میں سب سے بہتر کیا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا، اچھے اخلاق، حضرت عائشہ فرماتی ہیں صاحب ایمان بندہ اپنے اچھے اخلاق سے ان لوگوں کا درجہ حاصل کرلیتا ہے جو رات بھر نفلی نمازیں پڑھتے ہوں اور دن کو ہمیشہ روزہ رکھتے ہوں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے اخلاق ہے کیا؟ رہمدلی، جو رحمت سے لی گئی ہے دراصل اللہ تعالیٰ کی خاص صفت ہے اور رحمن اور رحیم اسکے خاص نام ہیں اور جن بندوں میں اللہ کی اس مفت کا جتنا عکس ہے وہ اللہ کی رحمت کے اتنے ہی مستحق ہیں دوسروں پر رحم کھانا ہی بہترین اخلاق ہے۔ اس میں صرف انسان ہی نہیں جانور بھی آجاتے ہیں جیسے کے ایک حدیث میں ہے کے رحم کرنے والوں اور ترس کھانے والوں پر رحمت والا خدا رحم کرے گا زمین پر رہنے بسنے والی اللہ کی مخلوق پر رحم کرو اللہ تم پر رحم کرے گا۔ سخاوت یہ بھی اخلاق کا حصہ ہے یعنی اپنی کمائی دوسروں پر خرچ کرنا رحم ہی کے ایک شکل ہے رسول اللہ کا ارشاد ہے سخی بندہ اللہ سے قریب ہے تیز اللہ کے بندوں سے قریب ہے۔یعنی اللہ کے بندے اس کی سخاوت کی وجہ سے اس سے تعلق اور محبت رکھتے ہیں۔ کنجوس آدمی اللہ سے دور اور اس کے بندوں سے بھی دور ہے،حضورۖ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے تم دوسروں پر خرچ کرتے رہو میں تم پر خرچ کرتا رہوں گا۔ انتقام نہ لینا اور معاف کردینا! رحم دلی کی جڑ سے جو شاخیں پھوٹتی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اپنے مجرم کو معاف کردیا جائے اور اس سے انتقام نہ لیا جائے۔ ایک رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی جناب میں عرض کیا پروردگار! آپ کے بندوں میں کون آپ کی بارگاہ میں زیادہ باعزت ہیں؟ ارشاد فرمایا وہ بندے جو قصور وار پر قابو پانے کے بعد اور سزا دینے کی قدرت رکھنے کے باوجود اس کو معاف کردیں۔ احسان! رحم ہی کی شاخوں میں سے احسان کی مفت بھی ہے احسان کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کے ساتھ اپنی طرف سے بھلائی کی جائے خواہ اس طرح کے اس کو کوئی چیز بطور تحفہ دی جائے یا اس کا کوئی کام کردیا جائے اس کو آرام پہنچایا جائے یا کوئی ایسا کام کیا جائے جو اس کے لئے خوشی کا باعث ہو یہ سب مورتیں احسان کی ہیں اور رسول اللہ نے امت کو اس کی ترغیب دی ہے۔ رسول اللہۖ نے فرمایا جس کسی نے میرے کسی اُمتی کی کوئی حاجت پوری کردی اس کا دل خوش کرنے کے لئے تو اس نے مجھے خوش کیا اور جس نے مجھے خوش کیا اس نے میرے اللہ کو خوش کیا اور جس نے اللہ کو خوش کیا اللہ اس کو جنت میں داخل کرے گا(باقی آئندہ)۔
٭٭٭












