بنگلہ دیش کا مطالبہ ہر روز طول پکڑتا جارہا !!!

0
339
حیدر علی
حیدر علی

میرا پہلے خیال تھا کہ پاکستان کے وزیرخارجہ اسحاق ڈار کو محض خانہ پُری کیلئے بھرتی کیا گیا ہے یا کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے سمدھی ہیں۔ ٹھیک ہے کہ اُن کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے ، لیکن پودے بونے والوں سے اُن کا دور دور سے کوئی واسطہ نہیں۔ اُنہوں نے یہی حقیقت اپنے حالیہ دورہ بنگلہ دیش میں ثابت کردی۔ اُنہوں نے جس استقامت ، سخن دلنوازی اور جرأت سے وہاں کے اخبارات اور ٹیلیویژن کے رپورٹروں کو سوالات کا جواب دیا وہ بنگلہ دیشی دیکھتے ہی رہ گئے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بنگلہ دیش کے میڈیا کے نمائندوں کو خطاب کرتے ہوے کہا کہ ” اپنے دِل کو صاف رکھئیے جس کی مذہب اسلام میں تاکید کی گئی ہے۔ اسلامی تعلیمات کیا ہیں، قرآن پاک اور سنت محمد ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ دِل کو صاف رکھ کر ہم آگے بڑھیں۔ ہملوگ ایک فیملی کے مانند ہیں اور ہم سبھوں کو متحد ہوکر کام کرنا ہے۔ ” لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسحاق ڈار کی نصیحت اُن کے فرمان سے بھانت بھانت کے ہندو ذہنیت کے سیاسی رہنما متفق نہیں ہیں اور وہ کسی نہ کسی کونے سے کچھ نیا شوشہ چھوڑدیتے ہیں اور جو بذات خود بنگلہ دیشیوں کی اکثریت کا ترجمان نہیں ہوتا۔ اِسی طرح کے ایک نام نہاد دانشور شیخ توفیق حق
ڈائریکٹر ساؤتھ ایشیا انسٹیٹیوٹ آف پالیسی نے کہا کہ ایک سال کے مختصر عرصے میں ڈھاکا اور اسلام آباد نے دوبارہ اعلی پیمانے کی گفت شنید اور تجارتی تعلقات کا آغاز کیا ہے، لیکن تاریخ اپنے آپ کو اتنی آسانی سے جداگانہ نہیں رکھ سکتی ہے۔ بنگلہ دیشیوں کیلئے 1971 ء کی آزادی کی جنگ کا سہرا آج تک اُن کی ضمیر کا سرچشمہ ہے۔ ناشکستہ اُلجھے ہوے مسائل مستقبل کے تعلقات کیلئے رکاوٹ بنے ہوے ہیں۔ توفیق حق نے مزید کہا کہ دونوں ملکوں کے مابین اچھے تعلقات کیلئے مائنڈ سیٹ میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان کیلئے معنی خیز اور ٹھوس اقدام دونوں ممالک کے مابین خیر سگالی کے جذبہ کو فروغ دے سکتی ہے۔ بنگلہ دیشیوں کو اِس حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے کہ ماضی کو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا لیکن مستقبل کو عملی اقدام اور باہمی احترام کے جذبہ سے سنوارا جاسکتا ہے۔ دو فریقوں کے مابین الزام تراشیوں کے باوجود پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات میں بامسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ تجارت سال رواں میں $628 ملین ڈالر سے $865 کو پہنچ گئی ہے۔ دونوں ممالک نے براہ راست شپنگ کا آغاز کردیا ہے۔ ویزا کے اجرا میں سہولت دی جارہی ہیں ۔ تعلیم ، ثقافت اور میڈیا میں بھی پیش رفت ہورہی ہیں جیسا کہ دونوں ممالک نے کئی دستاویزات پر دستخط کئے ہیں۔ لیکن انتہائی چابکدستی کا کام جو پاکستان کے وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے انجام دیا کہ اُنہوں نے
دوٹوک الفاظ میں بنگلہ دیش کے میڈیا کے نمائندوں کو یہ واضح کردیا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے تنازعات ایک مرتبہ نہیں بلکہ دومرتبہ ماضی میں حل ہوچکے ہیں اور اِس ضمن میں مزید گفتگو کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ اُنہوں نے اِس کی نشاندہی کرتے ہوے کہا کہ پہلی مرتبہ یہ تنازع 1974 ء میں اور دوسری مرتبہ سابق صدر مرحوم پرویز مشرف کے دورہ بنگلہ دیش کے دوران اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا ہے۔ بنگلہ دیش کے ہندو ذہنیت کے رہنماؤں اور اکٹوسٹوں کی خواہش ہے کہ پاکستان بنگلہ دیش سے 1971 میں بنگالیوں پر پاکستانی فوج کی جانب سے کئے جانے والے مظالم پر معافی مانگے اور ساری دنیا میں

اِس کا ڈھنڈورا پیٹے۔ مزید برآں پاکستان اثاثہ کی تقسیم اور محصورین پاکستان کی واپسی کے سلسلے میں کوئی اقدام اٹھائے۔ بنگلہ دیش جن اثاثے کا دعوی کر رہا ہے اُس میں چار بلین ڈالر کی وہ رقم جس میں 1971ء سے قبل کی غیر منقولہ جائداد ، بیرونی امداد ، پراویڈنٹ فنڈ اور 200 ملین ڈالر جو بنگلہ دیش میں سیلاب سے نقصان کیلئے ملی تھی شامل ہے۔ محصورین بنگلہ دیش کی ضمن میں بنگلہ دیش کا موقف ہے کہ سوا تین لاکھ پاکستانی بنگلہ دیش کے 79 کیمپس میں مقیم ہیں اور جو پاکستان جانا چاہتے ہیں ، بنگلہ دیش کے اخبارات میں اِس ضمن میں جو اعداد و شمار آئے تھے اُس میں یہ تخمینہ صرف پچیس ہزار کی تھی۔ معلوم نہیں بنگلہ دیش کے اکٹوسٹ اِس میں اضافہ کرکے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ؟
بہرکیف سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سقوط ڈھاکا سے قبل پاکستانیوں کی ایک اکثریت جو وہاں صنعتکار، سرمایہ کار اور قیمتی جائداد کے مالک تھے ، وہ اُن سارے اثاثے کو چھوڑ کر پاکستان آگئے تھے۔ بعد ازاں بنگلہ دیش کی حکومت نے اُن سارے اثاثوں کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ کیا بہترہوتا کہ جس طرح ایران اور ترکی کی حکومت نے پاکستان کو سیلاب کی تباہی سے نپٹنے کیلئے ہر قسم کی امداد کی پیشکش کی ہے ٹھیک اُسی طرح کی فراخدلی کا مظاہرہ بنگلہ دیش کی حکومت بھی کرے۔ خیرسگالی کے اِس جذبہ سے نہ صرف بنگلہ دیشی پاکستانیوں کا دِل جیت سکتی ہے بلکہ مستقبل میں اگر کبھی بھارت نے بنگلہ دیش پر جارحیت کیا تو پاکستان کی فوج بھی اُن کے شانہ بشانہ لڑے گی۔
بنگلہ دیش کے عوام یکے بعد دیگر تنگ نظری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ تازہ ترین صورتحال میں وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ماضی میں اُنہوں نے جن ایک سو پچانوے آفیسرز کو اِس شرط پر رہا کیا تھا کہ پاکستان کی حکومت اُن پر مقدمہ چلائیگی اور اُنہیں پھانسی کے تحتہ پر لٹکائیگی۔ لیکن تاہنوز اُنہوں نے ایسا

نہیں کیا۔ کیا ایسا کرنا پاکستان کی حکومت کیلئے ممکن ہے۔ کیا پاکستان بنگلہ دیش ہے؟

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here