سندھ طاس معاہدہ…پاکستان کی شہ رگ!!!

0
140
شمیم سیّد
شمیم سیّد

پاکستان اب تواتر سے ہر دوسرے، تیسرے سال ، کبھی کم کبھی زیادہ شدت کے سیلاب کا شکار رہتا ہے۔ موجودہ برس ایک بار پھر سیلاب اور بارشوں نے مل کر ہمارا امتحان لینا شروع کر دیا ہے۔ جب بھی سیلاب آتے ہیں یہ بحث ضرور چھڑ جاتی ہے کہ بھارت نے پانی چھوڑ دیا ۔ ان سیلابوں کا ذمہ دار بھارت ہے لیکن ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ کیا صرف بھارت ہی اس سب کا ذمہ دار ہے؟ جنر ل ایوب خان اور پنڈت جواہر لعل نہرو نے کراچی میں انیس سو ساٹھ میں جب پاکستان اور بھارت نے عالمی ساہوکاروں کی موجودگی میں انڈس واٹر ٹریٹی پر دستخط کیے تو بظاہر یہ معاہدہ امن و استحکام کا ایک راستہ تھا۔ ہمیں دریا ملے، بھارت کو کچھ دریا دیے گئے، اور سمجھا گیا کہ اب پانی پر کوئی جھگڑا نہیں ہوگا۔ مگر مودی سرکار کے آنے کے بعد اس معاہدے کو سیاسی ہتھیار بنایا گیا۔ مودی بارہا جلسوں میں، تقریروں میں اور انتخابی ریلیوں میں یہ اعلان کر چکا ہے کہ ہم نے انڈس واٹر ٹریٹی کو بند کر دیا ہے، ہم پاکستان کی رگوں میں پانی روک دیں گے، ہم اسے پیاسا ماریں گے۔ یہ صرف الفاظ نہیں تھے بلکہ ایک عملی منصوبہ تھا۔مودی جانتا ہے کہ پاکستان کی معیشت کا دارومدار زراعت پر ہے، اور زراعت کا دارومدار پانی پر۔ اگر پانی کی روانی روک دی جائے تو گندم، چاول، کپاس سب تباہ ہو جاتے ہیں۔ اور اگر اچانک پانی چھوڑ دیا جائے تو سیلاب کی شکل میں وہی فصلیں، وہی گاوں، وہی شہر برباد ہو جاتے ہیں۔ گویا یہ پانی کسی ہتھیار سے کم نہیں، بلکہ ایٹم بم سے زیادہ مہلک واٹر بم ہے۔اس سیلاب سے پاکستانی عوام کو اس حقیقت کا ادراک ہوگیا ہے کہ بھارت ہمارے ساتھ کیا کھیل کھیل رہا ہے۔ جب کشمیر کے اوپر سے آنے والے دریاوں پر بھارت نے بند باندھے، ڈیم بنائے اور پانی جمع کیا تو یہ محض بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ نہیں تھا۔ یہ دراصل ہمارے لیے موت کا جال بننا تھا۔پچھلے دنوں جب بارشیں ہوئیں تو بھارت نے آخری لمحے تک ہمیں اطلاع نہ دی کہ وہ کتنا پانی چھوڑ رہا ہے۔ لاکھوں کیوسک پانی اچانک چھوڑا گیا اور یہ پانی ہمارے شہروں اور کھیتوں کو بہا لے گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ محض اتفاق ہے یا سوچی سمجھی کارروائی؟ اب ذرا اپنی حالتِ زار پر غور کریں۔ تقریبا سترہ کروڑ ایکڑ فٹ پانی ہر سال پاکستان سے گزرتا ہے، مگر ہم صرف بیس فیصد پانی ذخیرہ کر پاتے ہیں۔ باقی سمندر کی نذر ہو جاتا ہے۔ بلاشبہ بھارت سیلاب کی تباہ کاریوں کا مکمل نہیں تو جزوی طور پر ذمہ دار ضرور ہے، جس میں سب سے اہم اسکی جانب سے اپنے بیراجوں اور ڈیموں سے ایک دم اور بلا مناسب اطلاع پانی چھوڑ دینا ہے۔ بھارت کی اخلاقی گراوٹ اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ آجکل بھارتی میڈیا پر ان کے دا نشور اور صحافی خوشیاں مناتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان میں سیلاب آ رہے ہیں۔ بیچارے جنگ کے میدان میں تو کوئی تیر مار نہیں سکے اور اپنے عوام کو یہی بول بول کر تسلی دے رہے ہیں کہ ہم نے بڑی منصوبہ بندی سے پاکستان میں سیلاب کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ درحقیقت بھارت کی بزدلانہ اور مکارانہ چالاکیوں کے علاوہ بھی بہت سی ایسی وجوہات ہیں جو پاکستان میں آئے دن سیلابوں کی وجہ بن رہی ہیں اور جن میں سے کچھ پر تو ہمارا بس نہیں لیکن کافی ایسی بھی ہیں جن کا سد باب کیا جا سکتا ۔ ویسے تو پاکستان کو قدرتی جغرافیہ ہی ایسا ہے کہ پاکستان برصغیر کے زیریں اور بھارت بالائی حصوں پر مشتمل ہے۔ اس لیے بھارت اپنی آبی دہشت گردی کے لیے قدرتی طور پر بہتر پوزیشن میں ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ اور وجوہات بھی ہیں جن پر غور کرنا ضروری ہے ۔ اس سب سے بچائو ممکن تو ہے لیکن یہ ایک لمبا، وسائل طلب کام ہے۔ سب سے پہلے جلد از جلد اور زیادہ سے زیادہ درخت اور جنگلات لگانا اور پہلے سے موجود جنگلات کی حفاظت بھی گلوبل وارمنگ کے نقصات سے بچنے کے لیے ضروری ہیں۔ ہمارے یہاں جہاں امیر ، مافیا کی حفاظت میں درختوں کی غیر قانونی کٹائی اور لگے ہوئے درختوں اور کھلیانوں پر ہائوسنگ سوسائیٹیاں بنا رہے ہیں تو دوسری جانب ہمارے غریب اپنی ضرورت یا کچھ پیسے کمانے کے لیے درخت کاٹ رہے ہیں۔ نئے درخت اور سبزہ لگانا ہماری بقا کے لیے لازم ہو چکا ہے۔ الگ الگ منصوبے اور پالیسیاں بنانا ضروری ہے۔ ان سب کو ایک مربوط قومی پالیسی سے ضم کیا جا سکتا ہے۔ ہر قسم کے اختلافات بھلا کر اور بغیر اس بحث کے گزشتہ دہائیوں میں کس حکومت نے کیا کیا اور کس حکومت نے کیا نہیں کیا ، کم از کم اس ایک مسئلے پر ایک جامع اور متفقہ پالیسی فوری طور پر تشکیل دینے اور اسپر عمل کرنا سب سے اہم ہے۔ گلوبل وارمنگ ایک عالمی مسئلہ ہے ۔ اگر ہم خود ہی یک آواز نہیں ہونگے تو باقی دنیا کو بھی ہمارے مسائل میں کوئی دلچسپی نہیں ہو گی۔ رہی بات بھارت کی تو یہ کوئی نئی یا ڈھکی چھپی بات نہیں کہ وہ تو ہے ہی ہمارا ازلی دشمن۔ اصل ذمہ داری ہماری ہے کہ ہم ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے، بہتر سیلابی بند بنانے، ڈیموں سمیت دیگر ضروری انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے جلد اور مضبوط اقدامات کریں۔ اگر اب بھی نہیں تو کب؟ امید ہے کہ ہماری حکومت اور محکمہ جنگلات اس سلسلے میں ہنگامی بنیادوں پر کا م کر ر ہے ہونگے۔ بارشوں اور سیلابوں کے درمیا ن ضائع ہونے والے پانی کو ذخیرہ اور بعد ازاں استعمال کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ ڈیم جلد از جلد بنانا ضروری ہے۔ پچھلی دہائیوں میں جنگلات کی کمی، شہروں میں تجاوزات اور غیر مناسب منصوبہ بندی، شہری علاقوں (خاص طور پر بڑے شہروں میں) نکاسی آب کے ناکافی انتظامات بھی سیلابوں میں اضافہ کا باعث ہیں۔ شہر پھیل گئے لیکن اس حساب سے نکاسی آب کی شہولیات موجود نہیں۔ کسی زمانے میں برساتی نالے بھی ہوا کرتے تھے اور مون سون کی آمد سے پہلے باقاعدہ ان برساتی نالوں کی صفائی شروع کر دی جاتی تھی۔ اب یہ نظام ہوتے ہوتے نا پید ہو چکا ہے۔ ایک اور اہم اور ضروری وجہ آبادی وقت اور ضرورت کے مطابق ڈیمز وغیرہ کی تعمیر کا نہ ہونا بھی اہم ہے۔ ہماری اور تمام دنیا کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان اپنے جیسے ممالک کے ساتھ مل کر ایک گروپ بنائے اور پھر ایک بار نہیں بلکہ بار بار عالمی سطح پر آواز بلند کرے کہ ہمیں اس عالمی خطرے کے اثرات سے بچنے کے لیے مل کر اور جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہونگے ۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں جغرافیہ، موسم ، لوگوں کا رہن سہن اور انکی تعلیم مختلف ہے اس لیے اس سلسلے میں ایک قومی پالیسی تمام ملک میں ہمیں خاطر خواہ کامیابی نہیں دے سکتی۔
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here