کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ33کروڑ آبادی کے ملک میں صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹ کی امیدوار نے اب اپنے نام سے پیدائشی نام ہٹا کر صرف ہیرس رہنے دیا ہے۔ تو کیا آپ ایسے امیدوار پر یقین کرسکتے ہیں جو پہلے خود کو انڈین کہتی تھی اور اب افریقن امریکن کہتی ہے اگر کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے تو ان کے بے بنیاد دعوئوں اور ٹرمپ پر جھوٹے الزام کی جو جاری ہیں۔ اگر سچ پوچھا جائے تو وہ ہر لحاظ سے صدارت کے لئے نااہل ہیں بلکہ وہ کسی بھی عہدے کے لئے نااہل ہیں۔ پچھلے51سال میں ہم نے کبھی ایسا امیدوار نہیں دیکھا۔ جو بغیر کسی ایجنڈے کارکردگی سنجیدگی کے صدر بننے کے لئے الیکشن لڑ رہا ہو۔ ہم نے بہت کوشش کی جاننے کی کہ انہیں کس نے ان کی ناکارکردگی پر چنا ہے جب کہ پچھلے ساڑھے تین سال کا ریکارڈ زیرو ہے۔ اور اس لحاظ سے بھی وہ ناکارہ ہیں کہ انکے کریڈٹ میں کوئی بات نہیں انہوں نے کچھ نہیں کیا ہے جو عوام ووٹ دینے کا سوچیں۔ سب سے پہلے ہم امریکی میڈیا اور پول کی بات کرتے ہیں۔ اُن کے اعلان کرتے ہی وہ ٹرمپ سے ہر جگہ دو سے چار فیصد آگے ہیں یہ بھی مذاق ہے کہ ایک ایسا کوراامیدوار امریکہ کا صدر بننے کا خواب دیکھ رہا ہے اور انہیں یقین ہے بلکہ دلوایا گیا ہے کہ وہ صدر بن جائینگی ذرا غور کریں امریکہ کے ناپسندیدہ سیاست دانوں کی جارج بش کے نائب صدر ڈک چینی اور انکی بیوی لز چینی نے بیان دیا ہے کہ ”امریکہ کو ڈونلڈ ٹرمپ سے بڑی کوئی دھمکی نہیں۔ ڈک چینی یہ بات کرنے سے پہلے اپنا وقت بھول گئے کہ اب تک کی تاریخ میں ڈک چینی امریکہ کے لئے سب سے بڑی دھمکی رہ چکے ہیں۔ جنہوں نے جنگیں کرا کر امریکہ کو کنگال کردیا ۔دنیا میں امریکہ کی عزت نہیں۔ دوسرے نمبر پر بارک اوبامہ آتے ہیں انکے دور میں بھی خوب جنگیں ہوئیں اور پہلے کالے صدر کی حیثیت سے وہ اپنی تاریخ بنا گئے۔ مزے کی بات یہ کہ امن کا نوبل پرائز بھی لے گئے جس کا خود انہیں یقین نہ تھا۔ ہم آج بھی سوچتے ہیں کہ نوبل پرائز کی اب کیا اہمیت ہے یہ امریکی ستارہ امتیاز ہے۔ اب کچھABCٹی وی کو میزبان اوپر اون فری کے لئے کہتے چلیں کہ وہ جرب زبانی کی بنیاد پر پہلی افریقی امریکی اینکر بنی تھیں اور ان کا شو آسمان چھو رہا تھا۔ پھر وہ ایک چینل کی مالک بھی بن گئیں اور اب سیاسی تجزیہ نگار ہیں اور امریکن کو بتا رہی ہیں۔کمالہ کو ووٹ دیں جب کہ ان کے پاس کمالہ کے لئے کہنے کو کچھ نہیں لوگ ان سے متاثر تھے اب یہ بات پرانی ہے۔ اور یہ تمام لوگ ڈونلڈ ٹرمپ کے پیچھے پڑگئے ہیں اپنے اپنے ذاتی مقاصد کے لئے۔ امریکہ کی بہتری کے لئے نہیں۔ پچھلے چار سال میں جو درگت امریکہ کی بنی ہے ہم اس کے گواہ ہیں ان میں ایک نہایت ہی غیر قانونی بات کمالہ کے دور میں ہوئی ہے(جاری ہے) وہ غیر قانونی لوگوں کا بارڈر کراس کرنا ہے اور اس کی روک تھام نہ ہی کمالہ اور نہ ہی بائیڈین نے کی ہے امریکہ دنیا کا واحد ملک ہے جسے غیر قانونی حرکتوں پر اعتراض نہیں۔ اب اگر ڈونلڈ ٹرمپ بارڈر بند کرنے کا کہتا ہے تو کیا یہ غیر قانونی ہے ہماری مجبوری یہ ہے کہ امریکہ کے بہتر مستقبل کے لئے جو امریکی عوام کا مستقبل ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ سے بہتر امیدوار کوئی اور نہیں کہ جس کے آنے سے غیر قانونی کام کرنے والے جنگ کرانے والے، مہنگائی کرنے والے، ہیلتھ کیئر نظام کو بگاڑنے والے اور فارماسوٹیکل کارپوریشن کے علاوہ آئل کمپنیوں اور کارڈیلروں کو پریشانی ہو۔ بتاتے چلیں ٹرمپ، ایک ہوشیار بزنس مین ہے۔ اس نے جو کچھ کیا ہے قانون کے تحت کیا ہے۔ اگر بنک کرپسی فائل کی ہے تو قانون بنانے والوں سے پوچھیں جس کا فائدہ ٹرمپ کے علاوہ لاکھوں بزنس کرنے والوں اور فرد واحد نے اٹھایا ہے۔
جب آپ بنک سے ادھار لے کر ریستوران یا کوئی اور بزنس کھولتے ہیں تو شروع کے تین سالIRSچیک نہیں کرتا تو نام بدل لیں اور اگر بنکوں کا قرض چڑھ گیا ہے۔ تو بنک کرپسی کردیں اور یہ برسوں سے ہو رہا ہے کہنے اور لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ پوچھیں خود سے کہ کمالہ ہیرس کو کیوں ووٹ دیں ابھی جو کچھ اسرائیل کر رہا ہے روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں شہریوں کو گولہ باری کرکے مار رہا ہے کیا نائب صدر ہوتے ہوئے رکوا سکتی ہے ہرگز نہیں بائیڈین اور اسکی کابینہ کے علاوہ تمام سیاستدانوں نے اسرائیل کو ڈالرز دینے کے علاوہ کھلی چھٹی دے رکھی ہے مارو جتنا مار سکتے ہو”ہم ہیں نا! ”۔
آپ کسی بھی چینل کو دیکھ لیں۔ABC، NBC، CBS، CNN، Foxبلوم برگREUTERSیا نیومیکس آپ کو یہ بات ہی ملے گی کہ کمالہ ہیرس ٹرمپ سے آگے ہیں۔ جب کہ آجCOLLEGEکے پول کے تحت ایری زونا، نارتھ کیرولینا میں ٹرمپ کو برتری حاصل ہے۔ حالیہTIME میگزین میں امریکہ کے تین بڑے تجزیہ نگاروں کا حوالہ دیا ہے جنہوں نے ٹرمپ کو ڈائون کیا ہے یہ کہہ کر ٹرمپ نے اثر ہیں یا بولڈ ہوچکے ہیں۔ یہ ایک سازش ہوسکتی ہے اور تصویر میں دونوں کو بحث کرتے ہوئے بتایا ہے جس میں کمالہ ہیرس چہرے یر تاثر دے رہی ہے ٹرمپ کو چڑا رہی ہے دوسری جانب ٹرمپ کا غصہ والا چہرہ دکھایا ہے ایسا ممکن ہے کہ ایک جھوٹے کے آگے آپ جھنجلا جائیں۔
کمالیہ ہیرس کے پاس کہنے کے لئے کچھ نہیں کچھ بھی تو نہیں۔ البتہ ایک ایسی آبادی بھی ہے جو کمالہ ہیرس کی طرح دماغ سے خالی ہے جنہوں نے کبھی نہیں سوچا کہ امریکہ کے انفراسٹرکچر کو نہ بگاڑا جائے۔ ان میں تھرڈ ورلڈ ملکوں سے آئے لوگ زیادہ ہیں۔ اور وہ جو کام کئے بغیر ریاستوں پر بوجھ ہیں اور خزانے پر گزارا کرتے ہیں۔ جو کام نہیں کرتے اور بھتہ لیتے ہیں۔
ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ کمالہ ہیرس اپنی کہانی سناتی ہیں کہ وہ کس طرح یہاں تک پہونچیں دوسرے معنوں میں پہونچائی گئی ہیں ہم جاننا چاہتے ہیں کہ پچھلے ساڑھے تین سال میں ان کی کارکردگی کیا تھی اور صدر بننے کے بعد وہ امریکہ یا امریکی عوام کے لئے کیا کرینگی۔ بارڈر کھلا رہے گا یا بند کرینگی۔ مہنگائی کیسے ختم کرینگی۔ کارپوریشنز کیGREEDکیسے کرینگی ایسا کچھ نہیں ہے کہنے کو۔
اور اب ہم تجزیہ کرتے ہیں کہ کمالہ ہیرس کی سپورٹ کے بعد کیا نتائج ہونگے۔ پہلے یہ بتاتے چلیں کہ ووٹرز کتنے ہیں اندازے کے مطابق ان کی تعداد22کروڑ ہے اور ان میں سے66فیصد ووٹ پڑینگے۔افریکن امریکن کی تعداد40ملین ہے۔ہپینک کی تعداد34ملین ہےASIANکی تعداد15ملین ہے جب کہ مسلم ووٹرز2.5ملین ہیں اگر ان کو جمع کریں۔ تو تعداد87.5ملین بنتی ہے اور اب گورے امریکن کی تعداد 133ملین بنتی ہے۔ اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر صرف گورے ہی ووٹ ڈالیں تو ٹرمپ کی جیت شرطیہ ہے ٹرمپ نے اپنا ایجنڈا بتا دیا ہے اس کی بات میں وزن ہے ہر چند کہ یہ دونوں امیدوار پچھلے کسی بھی دو امیدواروں سے مختلف ہیں اور یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے کہ کمالہ ہیرس کو مالی اور اپنے ذاتی فائدے کے سپورٹر ہونے کے باوجود وہ الیکشن میں کامیاب نہیں ہوسکیں گی یہ بھی بتاتے چلیں ابھی پاکستانی ووٹرز کسی گنتی میں نہیں کہ وہ ووٹ کی اہمیت کو نہیں جانتے ان کا ایک جملہ سنائی دیتا ہے۔ کیا ہوتا ہے ووٹ ڈالنے سے دونوں امیدوار ایک ہی ہیں ”لیکن ایسا نہیں ہے ہمیں بتانے کی ضرورت نہیں کہ ٹرمپ کیا کرے گا اور کمالہ ہیرس جو تجربہ کے لحاظ سےBLANKہے کیا کریگی۔
اندازہ کیجئے ایک ایسا امیدوار جو صدر بننے کے لئے اپنا نام تبدیل کردے اور اپنی ذات بھی بدل دے تو وہ کیا کرسکتا ہے امریکہ کے ساتھ کمالہ ہیرس کا انتخاب میں گرنا یہ اس کے وہم وگمان میں بھی نہ ہوگا اس کو سازش کے تحت(امریکہ کے خلاف) لایا گیا ہے اور اب اس کو میک اپ کرایا جارہا ہے۔اس کی سوچ ایک پرائمری سکول کے بچے سے زیادہ نہیں۔ نائب صدر بننے کے بعد(جو حادثہ ہی تھا) کمالہ ہیرس نے کچھ نہیں سیکھا آپ اگر امریکہ میں شہری ہیں تو اس ملک کی اچھائی کا سوچیں گے نہ کہ جگ ہنسائی کرائینگے جو پچھلے ساڑھے تین سال سے ہو رہی ہے۔
٭٭٭٭٭