تیسری عالمی جنگ کے گہرے بادل!!!

0
75
اوریا مقبول جان

اکتوبر 1962 کے تقریبا ساٹھ سال بعد کوئی امریکی صدر ایک بار پھر اسی لہجے میں بولا ہے۔ حالات بالکل ویسے ہی ہیں۔ اس وقت امریکہ نے سوویت یونین کو نشانے پر رکھنے کے لئے اٹلی اور ترکی میں میزائل نصب کئے تو جوابی طور پر سوویت یونین نے کیوبا کے صدر فیڈرل کاسترو کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے امریکہ کے پڑوس میں واقع کیوبا کی سرزمین پر روسی میزائل نصب کرنے کی منظوری دے دی۔ جیسے ہی امریکی جاسوس طیاروں U-2 نے وہاں پر نصب ان روسی میزائلوں کی تصاویر پینٹاگون کو بھیجیں تو فورا نیشنل سکیورٹی کونسل کا اجلاس بلا لیا گیا ، جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ کیوبا پر حملہ کر کے ان روسی میزائلوں کو فی الفور تباہ کر دیا جائے، مگر امریکی صدر جان ایف کینڈی نے محتاط کھیلتے ہوئے کیوبا کا سمندری محاصرہ کر لیا۔ کسی بھی ملک کا سمندری محاصرہ عسکری زبان میں دراصل اعلانِ جنگ ہوتا ہے۔ سوویت یونین چونکہ کیوبا سے ہزاروں میل دور تھا اور اس زمانے میں دونوں ملکوں کو دور مار میزائلوں کی وہ رینج حاصل نہیں کی تھی کہ گھر بیٹھ کر حملہ آور ہو سکتے، اس لئے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا گیا اور کئی دنوں کے مذاکرات کے بعد سوویت یونین نے اپنے میزائل اکھاڑ لئے تھے اور امریکہ نے کیوبا پر حملہ نہ کرنے کا معاہدہ کر لیا۔ ان مذاکرات کے دوران کشیدگی اس سطح پر جا پہنچی تھی کہ امریکی صدر جان ایف کینڈی، مذاکرات کے آخری روز، پوری رات ٹیلی ویژن پر امریکی عوام کو جنگ کے لئے تیار کرتا رہا۔ ساٹھ سال بعد ایک بار پھر کسی امریکی صدر کے منہ سے ایسے ہی فقرے سنائی دیئے ہیں۔ یہ فقرے زیادہ خطرناک اس لئے بھی ہیں کہ اس دفعہ محاذِ جنگ امریکہ کے پڑوس میں نہیں، بلکہ اس سے ہزاروں میل دور، روس کے پڑوس میں سجنے جا رہا ہے۔ امریکہ نے ہمیشہ اس وقت جنگ کو روکنے کی کوشش کی ہے جب وہ اس کے ساحلوں اور سرزمین کے آس پاس لڑی جانی متوقع ہو ورنہ اپنی سرزمین سے دور وہ ہر جنگ میں کودتا ہے۔ جوبائیڈن نے تمام امریکی شہریوں کو یوکرین سے نکل جانے کے لئے کہا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اگر ماسکو نے یوکرین پر حملہ کر دیا تو وہ اپنے شہریوں کو نکالنے کے لئے افواج نہیں بھیج سکے گا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ لڑائی کی اس شدت میں شہریوں کو نکالنے کا کام کیسے ممکن ہو گا۔ انگلینڈ، فرانس اور یورپی یونین کے دیگر ممالک کے علاوہ جاپان اور جنوبی کوریا نے بھی اپنے شہریوں کو یوکرین چھوڑنے کے لئے کہہ دیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے گیارہ فروری 2022 کو آسٹریلیا کے دورے کے دوران کہا ہے کہ جنگ کسی بھی وقت شروع ہو سکتی ہے اور کوئی بھی چین میں شروع سرمائی اولمپک کھیلوں کے 20 فروری کو خاتمے کا انتظار نہیں کرے گا۔ امریکی صدر سے جب پوچھا گیا کہ جنگ شروع ہونے کے بعد آپ اپنے شہریوں کو کیوں نہیں نکال سکیں گے تو اس نے کہا، جب امریکہ اور روس میں فائرنگ شروع ہو گئی تو پھر یہ عالمی جنگ ہی ہو گی۔ جوبائیڈن نے کہا، ہم آج ایک بالکل مختلف دنیا میں رہ رہے ہیں، اور پھر جنگ کے اچانک بھڑک اٹھنے اور پھیل جانے کے بارے اس نے یہ اہم فقرہ بولا۔ ہمیں دنیا کی سب سے بڑی افواج میں سے ایک کا سامنا ہے، یہ ایک بالکل مختلف صورتحال ہے اور حالات کسی بھی وقت اچانک دیوانگی میں بدل سکتے ہیں۔ جنگ کے یہ بادل آج سے آٹھ سال پہلے اس وقت منڈلانا شروع ہوئے تھے، جب امریکہ نے یوکرین کو اپنے اتحاد نیٹو میں شمولیت کا لالچ دینا شروع کیا تھا۔ سی آئی اے نے اپنی مشہورِ عام تکنیک عوامی احتجاج کو سرمائے اور اپنے ایجنٹوں کے ذریعے نومبر 2013 میں منظم کروایا، جس کے نتیجے میں، روس کی حمایت کرنے والی یوکرین کی حکومت کے سربراہ یان کویچ کو زبردستی برطرف کر دیا گیا۔ اس واقعے سے روس کو اپنی سرحدوں پر شدید خطرہ محسوس ہوا اور اس نے اپنی افواج اور خفیہ ایجنسیوں کو حکم دیا کہ یوکرین کی افواج سے ہتھیار چھین کر یوکرین کا جزیرہ نما علاقہ کریمیا(Crimea)، جہاں پر روسی اقوام آباد ہیں، اسے یوکرین سے علیحدہ کروایا جائے۔ جب روسی افواج نے وہاں قبضہ کر لیا تو 16 مارچ 2014 کو وہاں ایک ریفرنڈم منعقد کروایا گیا جس میں 97 فیصد عوام نے روس کا حصہ بننے کے حق میں ووٹ دیا اور یوں کریمیا کا یہ جزیرہ نما علاقہ روس کا حصہ بن گیا۔ آٹھ سالوں سے جنگ کی ایسی ہی کیفیت اس پورے خطے پر طاری ہے۔ امریکہ نے یوکرین کو نیٹو میں شامل کرنے کے لئے آٹھ سال مسلسل کوشش کی اور گذشتہ ماہ امریکی صدر نے یہ اعلان کیا کہ اب یوکرین کے پاس فیصلے کا اختیار ہے کہ وہ کب نیٹو میں شامل ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے ہی یوکرین نیٹو میں شامل ہو گا، فورا امریکہ وہاں اپنے میزائل نصب کر دے گا، بالکل ویسے ہی جیسے روس نے 1962 میں کیوبا میں اپنے میزائل نصب کئے تھے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب ان میں، ایٹمی میزائل (Nuclear Warheads) بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ روس وہاں پراکسی جنگ بھی لڑ رہا ہے اور اس کے حمایتِ یافتہ لوگ یوکرین کے مشرقی علاقے دون باس (Donbas) میں گذشتہ آٹھ سال سے ایک عسکری تحریک چلائے ہوئے ہیں جس میں اب تک چودہ ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔ تازہ صورتحال یہ ہے کہ روس نے یوکرین کے اردگرد اپنے ڈیڑھ لاکھ فوجیوں کو تعینات کر دیا ہے، تمام جنگی سازوسامان وہاں پہنچ چکا ہے اور بڑے بڑے کنٹینروں میں قائم گشتی ہسپتالوں کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے بلڈ بینک، خون کے وسیع ذخیرے کے ساتھ بھی وہاں پہنچا دیئے گئے ہیں۔ گذشتہ جمعہ کو جب جوبائیڈن تقریر کر رہا تھا، تو اس دن روس نے وہی قدم اٹھایا تھا جو امریکہ نے کیوبا کے خلاف اٹھایا تھا، یعنی اس نے یوکرین کی بحری ناکہ بندی کر دی۔ یہ دراصل اعلانِ جنگ ہوتا ہے۔ لیکن روس نے وضاحت یہ کی کہ وہ دراصل بحرِ اسود میں بحری افواج کی مشقیں کر رہا ہے جو دس دنوں تک جاری رہیں گی۔ جو بھی وضاحت ہو، اس وقت یوکرین زمینی اور سمندری طور پر روسی افواج کے گھیرے میں آ چکا ہے، جو اس پر کسی بھی وقت حملہ کر سکتی ہیں۔ صدر پیوٹن نے کہا ہے کہ ہم کبھی برداشت نہیں کریں گے کہ یوکرین جو کئی صدیاں روس کا حصہ رہا ہے، وہ نیٹو کا حصہ بن جائے۔ جس دن ایسا کیا گیا، یہ ہمارے لئے اعلانِ جنگ ہو گا۔ امریکہ دراصل چین کی معاشی ترقی کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لئے دو مختلف محاذ کھولنا چاہتا ہے۔اگر صرف چین اور بھارت کی لڑائی پر اکتفا کیا گیا تو روس ایک اتحادی کے طور پر مدد کر کے جنگ کا پانسہ چین کے حق میں پلٹ دے گا۔ اس لئے امریکہ کے نزدیک روس کو ایسی لڑائی میں الجھانا مقصود ہے جس میں یورپ کے ممالک اس سے نیٹو کے تحت لڑ رہے ہوں اور وہ اس دوران اپنی افواج اور اسلحہ چین کی مدد کو نہ بھیج سکے۔ دوسری جانب چار ملکی اتحاد UAD Qکے تحت سرمایہ جاپان اور آسٹریلیا لگائیں گے، اسلحہ امریکہ کا، لیکن میدانِ جنگ بھارت، چین اور پاکستان بنیں گے۔ غرض جاپان کے سمندر سے لے کر برطانیہ کے رودبار تک ہر طرف فوجیں تعینات ہو چکی ہیں، جنگی بحری بیڑے گھوم رہے ہیں اور فضائوں میں ہوائی جہاز منڈلا رہے ہیں۔ کون کب اور کس وقت دیوانگی کا مظاہرہ کرتا ہے اور پھر رہے نام اللہ کا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here