گزشتہ سے پیوستہ!!
کچھ علاقوں میں بہت سارے حضرات خود کو حیدری، جعفری، کاظمی، علوی، فاطمی، حسینی، حسنی، محسنی، عابدی، شیرازی، بخار ی لکھتے ہیں۔ وہ حقیتا سید نہیں ہیں۔ تو ان سے گزارش ہے کہ وہ لکھنا چھوڑ دیں یا پھر وضاحت کریں۔ جیسے ان کے دادا کاظم تھے اس لئے کاظمی لکھوا رہے ہیں یا حیدر ،جعفر کے غلام ہیں اس لئے حیدری اور جعفری لکھوا رہے ہیں وغیرہ۔
ایسے افراد یا خاندان ضروری نہیں کہ بدنیتی سے ہی یہ لکھواتے ہوں۔ ہو سکتا ہے غفلت ہو یا ممکن ہے عقیدت ہو۔ بہت کم لوگ دیکھے ہیں جو ساتھ سید ہونے کا دعوی بھی کریں۔فیس بک اور واٹس ایپ پر عاقبت نا اندیش اپنی قبریں انگاروں سے بھرنے کی سبیل کر رہے ہیں۔کچھ لوگ سوشل میڈیا پر سادات دشمنی کا اظہار کھل کر رہے ہیں اور ہم کھل کر عظمت سادات کا احترام کر رہے ہیں۔ بہت سارے لوگ حضرت نوح کے بیٹے کی مثال دیتیہیں۔ وہ بالکل درست ہے اس لئے کہ اسلام میں فضیلت کا معیار تقوی ہے۔تاہم نوح کے ایک بیٹے کے خراب ہونے سے دوسرے بیٹے کی توہین تھوڑی کی جائے گی۔ الحمد للہ آج مسلمانوں کی اکثریت سادات کرام کا احترام کرتی ہے۔ صرف چند مفاد پرست ،متعصب ، حاسد اور جاہل افراد ایسے ہیں جوکوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔برصغیر میں حضرت عباس کی اولاد اعوان اور علوی بلکہ ہاشمی بھی عموما احترام سادات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سیاہ عمامہ نہیں پہنتے۔جبکہ ان کے ہاشمی ہونے میں کوئی شک نہیں۔ آخرکار پٹھان جب بچوں کو پکڑنے جاتے ہیں تو وہ بھی سیدوں کا از حد احترام کرتے تھے۔ میرے استاد بزرگوار مرحوم آیت اللہ مدرس افغانی سید طالب علم کے احترام میں منبر سے اتر جاتے تھے۔ احترام سادات ہمیں ہر حال میں ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔یمن میں سادات کو اشراف لکھا جاتا ہے۔ حضرت ابوالفضل العباس جو لشکر حسینی کے جرنیل تھے اور امام حسین کے بھائی تھے مگر عمر بھر خود کو امام حسین کا غلام کہلاوایا۔ حضرت عباس کی والدہ جناب ام البنینحسنین شریفین کے قدموں پر ہاتھ رکھ کر ملا کرتیں اور خود کو ان کی خادمہ کہلاواتیں۔ہم اعوانوں کی رگوں میں بھی حضرت عباس کا خون ہے۔اس لئے ہم سادات کرام کے نوکر کہلاتے ہیں۔ہماری مائیں ہمیں سبق دیتی ہیں کہ سید کے ساتھ ایک چارپائی پر نہیں بیٹھنا۔میں نے سادات کرام کے حکم پر بڑے بڑے قاتلوں کو ایک دوسرے کے قتل کو معاف کرتے ہوئے دیکھا ہے۔میرے گاوں سندرال میں امتیوں اور سادات کے قبرستان الگ الگ ہیں۔تاکہ سادات اور سیدانیوں کی توقیر و تعظیم ملحوظ خاطر رہے۔میرے اوپر جب دہشت گرد تابڑ توڑ حملے کر رہے تھے تو میں نے وصیت کی تھی کہ مجھے میرے والد مرحوم کی پائینتی میں دفن کرنا اور میری تختی پر موٹا سا لکھنا ادنی غلام سادات کرام و نوکر اولاد رسول سخاوت حسین ابن عطا اللہ۔(جاری ہے)
بصرہ کے ایک عارف باللہ لکھتے ہیں کہ میں نے سن رکھا تھا کہ مصر کے بازار میں ایک آہنگر ہے جو گرم لوہے کو ہاتھ سے کاٹتا ہے۔ اس کا ہاتھ نہیں جلتا۔ وہ پوچھتے پوچھتے بازار مصر پہنچے تو دیکھا کہ ایک آہنگر سرخ لوہے کو ہاتھ سے پکڑ کر دو ٹکڑے کر دیتا ہے۔ اس کی دوکان میں اوزار نظر ہی نہیں آ رہے ۔ انہوں نے پوچھا کہ اس کرامت کا راز کیا ہے ؟ اس نے کہا ایک روز ایک بیوہ اپنے یتیم بچوں کے لئے مجبور ہو کر مزدوری تلاش کرنے آئی جس پر میں نے اسے للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا اس نے کہا میں نیکوں کی اولاد ہوں ۔ مجھ پر رحم کرو اللہ تم پر رحم کرے گا۔
میں نے اس خاتون کا وظیفہ باندھ دیا اور للچانے پر نادم و شرمسار ہوا اور عالم خواب میں میں نے حضور اکرم کو دیکھا جو فرما رہے تھے تم نے میری اولاد پر رحم کیا اللہ نے اس کے بدلے تم پر آتش جہنم حرام کر دی ۔ چاہو تو دنیا میں آزما لو آئندہ آگ کو ہاتھ لگانا وہ تمہیں یہاں بھی نہیں جلائے گی۔ اے عارف! امید کرتا ہوں کہ قیامت میں بھی جلنے سے ایسے ہی بچ جاوں گا۔
سادات کرام سے ایک ادنی نوکر کی حیثیت سے دست بستہ گزارش کرتا ہوں کہ ان کی رگوں میں رسول، علی و بتول کا خون ہے۔ لہذا آئندہ خود کو زہد و متقی بنائیں اور اپنی اولادوں کو پاکیزہ کردار بنائیں۔ ورنہ بقول میر تقی میر
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی
خاص طور پر امریکہ میں رہنے والے سادات کرام سے یہ خصوصی اپیل ہے کہ ان کے بچے دوسروں کے بچوں سے اچھے ہوں اور الحمد للہ ہیں۔ تاہم فرزندان آدم و نوح کی مثالیں معاشرے میں کم جانی چاہیے ۔ البتہ سادات پر اعتراض کرنے والے ذرا اپنے گریبان میں بھی جھانک لیا کریں۔دیگراں را نصیحت خود میاں فصیحت۔ میں نے روایتوں میں خود دیکھا ہے کہ پہلے دو تین صدیوں میں سادات کے پسینے سے خوشبو آتی تھی انہیں اس علامت کے سبب قتل کر دیا جاتا تھا۔ اس لئے قدرت نے اسے بدل دیا۔ ایسے سادات کرام کو جانتا ہوں جنہیں قبر نبی اور قبور بنی و آئمہ سے باقاعدہ جواب سلام آتا تھا۔ بہت سارے سادات کو جانتا ہوں جو دوران مجالس عزا اپنی جدہ بی بی فاطمہ کی زیارت سے شرف یاب ہوتے ہیں۔
حضور اکرم نے فرمایا تھا میرے خاندان کے لوگ امت کے امام و قائد ہوں گے۔ سب کے سب قریش اور سب کے سب بنی ہاشم ہوں گے۔ کچھ مضمون نگاروں کو یہ اعتراض ہے کہ سادات زیادہ کیوں ہو گئے ہیں؟ تو جواب یہ ہے کہ قرآن نے انہیںکوثر یعنی خیر کثیر کہا ہے ہم کون ہوتے ہیں؟ قرآن کے احکام کو بدلنے والے۔ ابولہب، ابو سفیان، ابن وائل اور ابو جہل جیسے کے طعنے کا جواب کثرت ہی سے ہونا چاہئے۔ آج دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں جہاں سادات کرام موجود نہ ہوں ۔ اللہ انہیں مزید ترقی عطا کرے۔
میر باقر داماد اصفہانی نے فضائل سادات میں لکھی گئی معرک الارا کتاب میں لکھا ہے کہ عراق کا ایک شخص عازم حج ہوا وہ سامرہ پہنچ کر اپنے قافلے سے بچھڑ گیا ۔ اتنے میں سامرا میں دیکھا ایک خاتون کوڑے کرکٹ کے پاس سے حرام مرغی اٹھا کر گھر لے جارہی ہے۔ اس نے پوچھا کہ بی بی کیا آپ مسلمان نہیں ہیں ؟ محترمہ نے کہا کہ مسلمان تو ہوں میرے یتیم بچے آج اگر کھانا نہ کھائیں تو مر جائیں گے مجبورا انہیں کھلاوں گی ۔ اس کا سنتی حج تھا اس نے اپنی رقم والی تھیلی اس محترمہ کو پکڑا دی اور واپس گھر چلا گیا۔ اس شرم کے مارے کہ حج پر نہ جا سکا کچھ روز روپوش رہا ۔ جب حاجی واپس آئے تو ہرحاجی نے اس سے شکوہ کیا کہ دوران موسم حج تم ہم سے ناراض رہے اور دور دور رہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ بے حد حیران و پریشان ہوا کہ میں تو گیا ہی نہیں مگر یہ سب مجھے حاجی کہہ رہے ہیں۔ایک روز قیلولے کے لئے سویا تو عالم خواب میں سرکار ختمی مرتبت کو دیکھا۔ جنہوں نے بھی اسے حاجی کہہ کر سلام کیا اور فرمایا تم نے جس بی بی کو رقم دی وہ سیدانی تھی، میری نسل سے تھی۔ اللہ نے اس کار خیر کے عوض تمہاری شکل کا ایک فرشتہ پیدا کیا ہے جو تا قیام قیامت حج کرے گا اور تمہارے نامہ اعمال میں ثواب جاتا رہے گا۔ ایسے کار خیر سے واجبی حق قطعا معاف نہ ہوگا۔ تاہم سنتی حج کے ترک پر بھی سالانہ حج کا ثواب مل گیا وہ بھی تاقیامت ۔ اللہ ہم سب کو احترام سادات کی کی توفیق عطا کرے اور اولاد رسول کی توہین کرنے والوں کو ہدایت کرے ۔ جو غیر سادات سید بن کر سادات کے لئے بدنامی کا سبب بن رہے ہیں اللہ انہیں ہدایت کرے اور قابل ہدایت نہ ہوں تو سزا دے۔
قارئین! سادات ہمارے احترام کے محتاج نہیں ہیں تاہم ہمیں توہین کر کے دعائے رسول وبتول سے محروم نہیں ہونا چاہئے۔
٭٭٭