ٹرمپ کا گریٹر اسرائیل منصوبہ رواں دواں!!!

0
59
شمیم سیّد
شمیم سیّد

اسرائیل کی کابینہ نے 9اکتوبر2025 کوجنگ بندی اور عسکری معاہدے کی منظوری دی تھی، جس کے تحت جنگ بندی کی ابتدا متوقع تھی۔اِس کے باوجود جنگ بندی کے اطلاق کے بعد بھی غزہ میں اسرائیلی فضائی حملے، توپخانے کی شیلنگ اور فوجی کارروائیاں جاری رہی ہیں۔19 اکتوبر کو اسرائیل نے کہا کہ اس کے 2 فوجی مارے گئے ہیں، اِس کے بعد اس نے غزہ میں متعدد اہداف پر حملے کیے، جن میں مختلف علاقوں میں ہوائی اور توپخانے کی کارروائیاں شامل تھیں۔ ٹرمپ کا امن منصوبہ کہاں گیا؟ چند روز پہلے جب شرم الشیخ میں صدر ٹرمپ نے اپنے 20نکاتی فارمولے پر عمل درآمد کراتے ہوئے غزہ میں امن قائم کرنے کا ڈھنڈورا پیٹا تو ہمارے حکمرانوں سمیت دنیا کے کئی ممالک کے سربراھوں نے اس معاہدے کے بارے میں بڑی امید دلائی اور اس کی تعریف میں ہمارے وزیر اعظم صاحب نے تو جو زمین اور آسمان کو ایک کیا، وہ دیکھنے کے لائق تھا، تب بھی ہم نے کہا تھاکہ اسرائیل امن معاہدے کی پاسداری نہیں کرسکے گا اور ایسا ہی ہوا۔ غزہ میں جنگ بندی کے پہلے مرحلہ کے معاہدے پر دستخط کرنے کے باوجود اسرائیل درندگی سے باز نہیں آیا ہے۔فلسطینی حکام کے مطابق، اس عرصے میں کم از کم97 افراد شہید ہوگئے جبکہ بھاری تعداد میں لوگ زخمی ہوئے۔ایک ٹی وی رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے دعوی کیا تھا کہ اس کی تمام کارروائیاں عسکری اہداف تک محدود تھیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان حملوں میں مختلف علاقوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جن میں مرکزی غزہ کیمپ ، شمالی غزہ اور جنوبی غزہ شامل ہیں۔اِس دوران میں اسرائیل نے امدادی مال کی رسد روک دی یا اس میں کمی کردی جو جنگ بندی معاہدے کی واضح خلاف ورزی ہے۔مستزاد یہ کہ اسرائیل ہی نہیں امریکہ نے واضح طور پر یہ کہا ہے کہ آئندہ ردِ عمل مزید سخت ہوگا۔گویا جنگ بندی( اگر ہے بھی تو ) امن کی طرف گامزن نہیں ہے۔دونوں فریقین ہی ایک دوسرے پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام لگا رہے ہیں۔مثال کے طور پر اسرائیل نے کہا ہے کہ حماس نے فوجیوں پر حملہ کیا، جب کہ حماس نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔انسانی حقوق کی نگرانی کرنے والے ادارے تشویش ظاہر کر رہے ہیں کہ اس جنگ بندی کے باوجود شہری حلقوں میں ہلاکتیں جاری ہیں، اور امدادی رسائی محدود ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جنگ بندی معاہدہ ختم کرکے اسرائیل اپنے گریٹر اسرئیل منصوبے کے نزدیک تر ہو رہا ہے اور اہل غزہ کا تو نقصان ہو ہی رہا ہے جس پر مسلم امہ کے حکمران اپنے اپنے مفادات کے لئے امن معاہدے اور امن معاہدہ کرانے والے کی شان میں بے مثال قصیدے پڑھ رہے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم صاحب کا حافظہ شائد کمزور ہے کہ وہ اسرائیلی کنیسٹ میں ٹرمپ کے اِس بیان کو بھول گئے جس میں اس نے کہا تھاکہ امریکہ نے اسرائیل کی فتح کے لیے بے پناہ اسلحہ دیا ہے اور جسے انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ تمام پاکستانی ٹی وی چینلز پر براہ راست دکھایا بھی گیااور پاکستانی عوام اس پر سراپااحتجاج بھی رہی ، وہ یہ بات بھی بھول گئے کہ یہ وہی ٹرمپ ہے کہ جس نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں یروشلم کو ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا تھا اور اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیا تھا۔ عرب ممالک کو ابراہم اکارڈز کا جھانسا دے کر کئی ایک سے اسرائیل کو تسلیم کروا لیا تھا اور یہ وہی ٹرمپ ہے جس نے جنگی مجرم نیتن یاہوکو کامیاب ترین لیڈر قرار دیا ، جس نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ ہر امریکی صدر درحقیقت اسرائیل کا بغل بچہ ہوتا ہے۔حد تو یہ ہے کہ سٹیج پر کھڑے ہو کر اس جنگی مجرم کو امن کے نوبل انعام کا اصل حقدار بھی قرار دے دیا۔حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ کے امن منصوبے میں فلسطینیوں کے لیے اسرائیلی غلامی کے سوا کچھ بھی تونہیں، بلکہ بین السطور اسرائیل کو باقاعدہ مشرقِ وسطی کا تھانیدار بنانے اور گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو تیزی سے آگے بڑھانے کی توثیق کی گئی ہے۔ مستزاد یہ کہ فلسطین و غزہ میں تحاریکِ مزاحمت سے ہتھیار ڈالنے کا کھلا مطالبہ ہے۔ اگر اسرائیل کے مذموم عزائم کو ناکام بنانا ہے تو دشمنوں کی چاپلوسی نہیں بلکہ ان کے خلاف امت کا متحد ہو کر عملی کارروائی کرنا ناگزیر ہے۔جبکہ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے مقتدر طبقات ٹرمپ کی تعریف میں قصیدے پڑھ سکتے ہیں تو اسرائیل کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی پر جواب بھی طلب کریں۔مگر یہ توفیق تاحال کسی کو بھی نصیب نہیں ہو رہی ہے۔ یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے کہ ٹرمپ اور نیتن یاہو کی شدید خواہش ہے کہ تمام عرب اور غیر عرب مسلم ممالک جلد از جلد اسرائیل کو تسلیم کر کے اس سے سفارتی، سیاسی اور تجارتی تعلقات قائم کر لیں تاکہ (خاکم بدہن) قضیہ فلسطین اور مسجدِ اقصی کی حرمت کا معاملہ ہی ختم ہو جائے۔اِس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ یہود کی سرشت میں دھوکہ اور دجل شامل ہے،اِس لئے اِس مغضوب علیہم قوم سے کیے گئے وعدوں پر پوری طرح سے پہرا دیا جائے اور جب ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل اور اس کے معاون امریکہ دھوکہ دہی سے کام لیں اور معاہدے کی خلاف ورزی کریں،اسرائیل غزہ کے مسلمانوں کو امن معاہدے کے باوجود شہید کرے اور غزہ کے مسلمانوں کے لیے بین الاقوامی امداد پر بھی روک لگائے، تو تمام مسلم ممالک بالعموم اور معاہدے کے ضامن ترکیہ، مصر اور قطر بالخصوص اِن ظالموں کو کٹہرے میں کھڑا کریں۔ افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ پاکستان ایک مرتبہ پھر امریکہ کے چنگل میں پھنستا جا رہا ہے حالانکہ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ غزہ کی تباہی اور اب معاہدے کی خلاف ورزی کے ذمہ دار اسرائیل اور امریکہ ہیں۔
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here