گولڈن ٹیمپل پر حملے کے 39 سال !!!

0
51
شمیم سیّد
شمیم سیّد

39 سال گزرجانے کے باوجود آپریشن بلیو سٹار کے متاثرین اور سکھ کش فسادات کے دوران مارے گئے افراد کے اہلخانہ ابھی تک انصاف کے منتظر ہیں۔ آپریشن بلیو اسٹار سکھ برادری کے خلاف ریاستی سرپرستی میں بھارت کی دہشت گردی کا ایک کھلا مظاہرہ تھا۔ اگرچہ آپریشن بلیو سٹارسے پہلے ہی بھارت بھر میں سکھوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری تھیں،تاہم امرتسر میں گولڈن ٹیمپل پر حملہ بھارت میں اس طرح کی خلاف ورزیوں اور سکھوں کی منظم نسل کشی کا باضابطہ آغاز تھا۔آپریشن بلیو سٹار2جون 1984 کو شروع کیا گیا تھا۔ بھارتی فوج نے ٹینکوں اور توپ خانے کی مدد سے 2 اور 10جون 1984 کے درمیان گولڈن ٹیمپل پر حملے کے اس دوران یاتریوں سمیت ہزاروں سکھوں کا قتل عام ہوا۔سکھوں کی مقدس ترین عبادت گاہ کی بیحرمتی کی گئی۔ سکھ لیڈروں کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں ہمارے لئے یہ بڑا اچھا سبق ہے۔ہندوئوںنے تقسیم کے وقت سکھوں کو سبزباغ دکھا کر اورجھوٹے وعدے کرکے اپنے ساتھ ملایا تاہم سکھوں کو بہت جلد احساس ہوگیا کہ پنڈت نہرو اور سردار پٹیل نے ان کے ساتھ بہت بڑا دھوکہ کیا ہے۔چنانچہ سکھ رہنما ماسٹرتاراسنگھ نے 28 مارچ1953 کو کہا: انگریزچلاگیا لیکن ہم آزاد نہ ہوسکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ آزادی نہیں ، صرف آقا تبدیل ہوئے ہیں۔ پہلے سفید تھے اب کالے آگئے ہیں۔ جمہوریت اور سیکولرازم کا ڈھونگ رچا کر ہمارے پنتھ، ہماری آزادی اور ہمارے مذہب کو کچلا جا رہا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ اندرا گاندھی نے اپنے دور میں آپریشن بلیوسٹار کے تحت سکھوں کے انتہائی مقدس مقام گولڈن ٹیمپل پر چڑھائی کی ، اس میں 10ہزارسکھ زائرین کو ہلاک کردیاگیا تھا۔ جبکہ31 اکتوبر 1984 کو بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد اس وقت کی حکمران جماعت انڈین نیشنل کانگریس نے سکھوں کی نسل کشی کی منظم مہم شروع کی۔ اس مہم میں سکھوں کو جانی نقصان کا سامنا بھی ہوا، ان کے گھر بار تباہ وبرباد کردئیے گئے، ان کی جائیدادوں پر قبضے کئے گئے ، ان کی عبادت گاہوں پر حملے کئے گئے۔ہزاروں سکھ قتل کردئیے گئے۔ ایک اندازے کے مطابق اس مہم میں 30 ہزار سے زائد سکھ قتل کئے گئے۔ ان میں سے زیادہ تر بے بس تھے جن کو اپنے گھر والوں یا محلے والوں کے سامنے زندہ جلادیاگیا۔ سکھ رہنما اور کارکن آپریشن بلیو سٹارکو سکھوں کاہولو کاسٹسمجھتے ہیں اور وہ اپنے عظیم رہنما جرنیل سنگھ بھندراوالہ کے قتل کو بھولنے کے لئے تیار نہیں ہیں ، جنہوں نے سکھوں کو بھارتی سامراج کے خلاف بیدار کیا۔ بھارتی حکام نے آپریشن بلیو اسٹار کے دوران سکھوں کے خلاف کیے گئے بہیمانہ جرائم کو چھپانے کے لیے میڈیا پر سخت پابندیاں عائدکر رکھی تھیں۔ آپریشن بلیو سٹارنہ صرف سکھوں کے قتل عام بلکہ ان کے مقدس ترین مذہبی مقام کی بے حرمتی کے لیے ایک دانستہ اقدام تھا، جس نے سکھ برادری کی نفسیات پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ گولڈن ٹیمپل پر حملے کے خلاف بطور احتجاج بہت سے سکھوں نے سرکاری نوکریوں سے استعفی دیا اور بھارتی حکومت سے ملنے والے اعزازات واپس کر دیے۔اپنے مقدس ترین مقام پرحملے کے بعد ہر سکھ کو یقین ہو گیا کہ بھارت کے ساتھ ان کا مستقبل محفوظ نہیں ہے اور اس طرح سکھوں نے خالصتان کے نام پر ایک علیحدہ وطن حاصل کرنے کے لیے اپنی تحریک کو تیز کر دیا۔ 80 اور90 کے عشروں میں بھارتی حکومت کے ظلم و ستم سے تنگ آکر 90 فیصد سکھوں نے دنیا کے مختلف ممالک کا رخ کیا، بعد ازاں انھوں نے اپنے گھرانے کے دوسرے لوگوں کو بھی بلا لیا۔ وہ سکھ نوجوان بھی یہاں آگئے جنھیں بھارت میں بے روزگاری کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جا رہا تھا۔ چنانچہ وہ اپنی زمینیں اور جائیدادیں فروخت کرکے بیرون ملک مقیم ہوگئے۔ ظاہر ہے کہ ان کے پاس اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ اب بیرون ملک مقیم یہ سکھ پورے جوش وخروش سے خالصتان ریفرنڈم کے لئے تحریک چلارہے ہیں۔ خالصتانی تحریک کے ذمہ داران کا دعوی ہے کہ سکھ ازم دنیا کا پانچواں بڑا مذہب ہے۔ پوری دنیا میں اس کے ماننے والوں کی تعداد دوکروڑ 80 لاکھ ہے۔ دنیا میں اس قدر بڑی آبادی ہونے کے باوجود سکھوں کی تعداد بھارت کی آبادی کا محض 1.8فیصد ہے۔جن کا زیادہ تر حصہ پنجاب میں آباد ہے۔ خالصتان تحریک کے ذمہ داران اپنے وژن اور اہداف میں بہت واضح ہیں۔ انھوں نے خالصتان کا مکمل نقشہ تیار کرلیا ہے ، اس کے قیام کے بعد ممکنہ چیلنجز کا بھی انھیں احساس ہے اور ان کا حل بھی سوچ لیا ہے۔ انہیں احساس ہے کہ خالصتان چہار اطراف سے خشکی میں گھرا ہوا ایک ملک ہوگا۔ ممکنہ مملکت خالصتان کے ساتھ سمندر نہیں لگتا۔ ایسے میں اس کی معیشت کا کیا ہوگا؟ خالصتانی ذمہ داران کاخیال ہے کہ پنجاب ایک مضبوط معیشت کا حامل ملک ہوگا۔ سمندرکا کنارا کامیاب ریاست کی ضمانت نہیں بن سکتا اور سمندر کا کنارا نہ لگنے کا مطلب یہ نہیں ہوتاکہ وہ ریاست ناکام ہوگی۔ خالصتان کے قیام سے بھارت کا ریاست جموں و کشمیر پر قبضہ ازخود ختم ہوجائے گا کیونکہ بھارت اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان واحد راستہ خالصتان سے ہی گزرتا ہے۔ سکھ برادری کے بہادر لوگ ایک الگ وطن خالصتان کے حصول تک چین سے نہیں بیٹھیںگے اور بھارت کے خلاف ان کی جدوجہد دراصل ہندوتوا کی بالادستی کے خلاف جنگ ہے اور وہ مودی کے سامراجی عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے، چاہے کچھ بھی ہو۔ اس وقت ریاست جموں وکشمیر میں موجود سکھ تحریک آزادی کشمیر کی حمایت کررہے ہیں جبکہ ممکنہ مملکت خالصتان میں مسلمان خالصتان تحریک کا ساتھ دے رہے ہیںایک علیحدہ وطن کا یہ خیال جون میں گولڈن ٹیمپل کے قتل عام کی ہر برسی پر پھر سے تازہ ہوتا ہے۔کینیڈا میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ہاتھوں 45سالہ ہردیپ سنگھ نجر سمیت کئی سکھ رہنمائوں کو بھی جون میں قتل کیا گیا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here