اسلام کے عظیم مفکر امام غزالی ایک خوبصورت حکایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دنیا کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص جنگل میں چلا جارہا تھا، اُس نے دیکھا کہ میرے پیچھے ایک شیر آرہا ہے، وہ بھاگا، جب تھک گیا تو دیکھا کہ آگے ایک گڑھا ہے، چاہا کہ گڑھے میں گر کر جان بچائے، لیکن اُس میں اژدہا نظر آیا۔ اب آگے اژدہے کا خوف اور پیچھے شیر کا ڈر کہ اچانک اُس کی نظر ایک درخت کی ٹہنی پر پڑی اور اُس نے اُس پر ہاتھ ڈال دیا،مگر ہاتھ ڈالنے کے بعد معلوم ہوا کہ اُس درخت کی جڑ کو دو سیاہ وسفید چوہے کاٹ رہے ہیں، بہت خائف ہوا کہ اب تھوڑی دیر میں درخت کی جڑ کٹ گئی تو میں گر جائوں گا اور شیر اور اژدہے کا شکار بن جائوں گا۔ اتفاق سے اُسے درخت کے اوپر ایک شہد کا چھتا نظر آگیا۔ وہ اُس میٹھے شہد کو حاصل کرنے اور پینے میں ایسا مصروف ہوگیا کہ نہ اُسے شیر کا خوف رہا اور نہ اژدہے کی فکر، یکایک درخت کی جڑ کٹ گئی اور وہ گر پڑا، شیر نے پھاڑ کر گڑھے میں گرا دیا اور وہ گڑھے میں اژدھے کے منہ میں جا پھنسا۔ قارئین کرام! دنیا میں انسان کی مثال بھی کچھ اِسی طرح ہے۔ یہاں جنگل سے مراد دنیا ہے، اور شیر موت ہے کہ پیچھے لگی ہوئی ہے، اور گڑھا قبر ہے جو اُس کے آگے ہے، اور اژدہا اعمالِ بد ہیں کہ قبر میں ڈسیں گے، اور دو چوہے سیاہ وسفید دن اور رات ہیں، اور درخت گویا عمر ہے، اور شہد کا چھتا دنیائے فانی کی غافل کردینے والی لذات وخواہشات ہیں کہ انسان دنیا کی فکر میں موت، قبر، اعمالِ بد اور جواب دہی وغیرہ سب کو بھول جاتا ہے اور پھر اچانک موت آجانے پر سوائے حسرت و ندامت کے کچھ ساتھ نہیں لے جاتا۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے۔ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ دنیا کی خوشی محض دھوکا اور غرور اُس کے سازو سامان اور محل و قصور سب کے سب زوال پذیر اور چکنا چور ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ دنیا پر ستو تمہیں دنیا کی کس چیز نے مغرور بنا رکھا ہے حالانکہ یہ ایسا گھر ہے جس کا اول تکلیف اور آخر فنا ہے اور جس کی حلال چیزوں پر حساب اور حرام چیزوں پر عذاب ہوگا۔ مفکرین کا کہنا ہے کہ دنیا در حقیقت ایک قصر ہے جو ہزاروں قیصر دیکھ چکی۔ ایک طاق ہے جو ہزاروں کسریٰ دیکھ چکی۔ ایک رزم گاہ ہے جو ہزاروں سکندر دیکھ چکی۔ ایک عشرت کدہ ہے جو ہزاروں فرعون دیکھ چکی۔ دنیا ایک مسافر خانہ ہے مگر بدقسمتوں نے اِسے اپنا ٹھکانہ بنا رکھا ہے۔ دنیا ایک عورت ہے لیکن یہ کسی کے ساتھ حقوقِ شوہری ادا نہیں کرتی۔ ایک ایسی ماں ہے جو ہزاروں فرزند جنتی ہے اور مار ڈالتی ہے۔ حقیقت دنیا ایک مکر ہے اور بغیر مکر وفریب کے حاصل نہیں ہوسکتی۔ دنیا کو جو ذلیل سمجھتا ہے یہ اُس کی ہے اور جو اِس کے پیچھے بھاگتا ہے، یہ اُسے تھکا دیتی ہے، مگر ہاتھ نہیں آتی مگر جو اِسے چھوڑ دے یہ اُس کے پیچھے پڑ جاتی ہے اور ایک وفادار خادمہ کی طرح ہاتھ باندھ کے اُس کے پیچھے چل پڑتی ہے۔ شیخ عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں کہ دنیا اور آخرت میں سے آخرت کو مقدم رکھو تو تمہیں دنیا و آخرت دونوں مل جائیں گی اور اگر دنیا کو مقدم رکھو گے تو دونوں ہاتھ نہ آئیں گی۔
٭٭٭














