مصنوعی ذہانت…!!!

0
48
ماجد جرال
ماجد جرال

انسانی تاریخ نے کئی بڑے انقلابات دیکھے ہیں۔ زرعی انقلاب نے خوراک کی کمی ختم کی، صنعتی انقلاب نے پیداوار اور معیشت کا نقشہ بدل دیا، اور ڈیجیٹل انقلاب نے دنیا کو ایک گاں میں سمیٹ دیا۔ مگر جو انقلاب اس وقت ہمارے سامنے ہے، وہ سب سے زیادہ فیصلہ کن ہے: مصنوعی ذہانت کا انقلاب۔ یہ سوال اب محض سائنسی مباحث کا نہیں رہا بلکہ پوری تہذیب کا ہے کہ آیا یہ ٹیکنالوجی انسان کو نئی بلندیوں تک لے جائے گی یا اس کی بقا کے لئے خطرہ بنے گی۔ مصنوعی ذہانت کے حامیوں کا ماننا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی زندگی کو آسان، تیز اور سستا بنا دے گی۔ صحت کے شعبے میں فوری تشخیص، تعلیم میں ذاتی نصاب، معیشت میں بہتر فیصلے اور زراعت میں زیادہ پیداوار،یہ سب امکانات ایک روشن مستقبل کا پتہ دیتے ہیں۔ بلاشبہ دنیا میں پہلی بار ایسا لگ رہا ہے کہ مشینیں صرف اوزار نہیں بلکہ سوچنے والے ساتھی بن سکتی ہیں۔ مگر تصویر کا دوسرا رخ کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ روزگار کا ہے۔ جب روبوٹ فیکٹریوں میں مزدور کی جگہ لیں گے، جب کمپیوٹر وکیلوں اور صحافیوں کے متن لکھیں گے، اور جب الگورتھمز بینکوں میں فیصلے کریں گے تو لاکھوں لوگ اپنے آپ کو غیر ضروری پائیں گے۔ یہ سوال محض معاشی نہیں بلکہ سماجی بھی ہے: بے روزگار افراد کا مستقبل کون سنبھالے گا؟ پرائیویسی اور آزادی بھی دا پر لگی ہیں۔ مصنوعی ذہانت پر چلنے والے سسٹمز ہماری گفتگو، تحریر اور حتی کہ جذبات تک کو محفوظ کر کے ان کا تجزیہ کرتے ہیں۔ یہ ڈیٹا کس کے پاس جاتا ہے اور کیسے استعمال ہوتا ہے؟ اس کا جواب ابھی کسی کے پاس نہیں۔ خطرہ یہ ہے کہ کل کا انسان آزاد شہری کے بجائے ایک ڈیجیٹل غلام بن جائے جس کی ہر حرکت ریکارڈ اور قابو میں ہو۔ مزید خطرناک پہلو جنگی استعمال ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہر نئی ٹیکنالوجی کو پہلے میدانِ جنگ میں آزمایا گیا۔ مصنوعی ذہانت بھی اس سے مبرا نہیں۔ خودکار ڈرونز، سائبر وار فیئر اور ہتھیاروں کا ایسا نظام جو انسان کے بغیر فیصلہ کرے۔یہ سب وہ منظرنامے ہیں جو دنیا کو تباہی کے دہانے تک پہنچا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کئی عالمی ماہرین کھلے عام خبردار کر چکے ہیں کہ اگر فوری ضابطے نہ بنائے گئے تو AI ایٹم بم سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔اصل سوال یہ نہیں کہ مصنوعی ذہانت کیا کچھ کر سکتی ہے، بلکہ یہ ہے کہ ہم اسے کس کے لئے اور کس حد تک استعمال کرتے ہیں۔ اگر یہ دولت مند ممالک اور کارپوریٹ کمپنیوں کی اجارہ داری تک محدود رہی تو دنیا میں طبقاتی اور معاشی فرق مزید بڑھ جائے گا۔ لیکن اگر اس ٹیکنالوجی کو انصاف اور انسانی فلاح کے لئے استعمال کیا گیا تو شاید یہ تاریخ کا سب سے بڑا تحفہ ثابت ہو۔ اس وقت دنیا دو راستوں پر کھڑی ہے۔ ایک راستہ روشن ہے، جہاں مشین اور انسان مل کر ایک بہتر دنیا بناتے ہیں۔ دوسرا راستہ اندھیرا ہے، جہاں مشین انسان کے اوپر حاوی ہو جاتی ہے۔ فیصلہ آج کے پالیسی سازوں، حکومتوں اور معاشروں نے کرنا ہے۔ کل کی نسل کو وہی مستقبل ملے گا جس کی بنیاد ہم آج رکھتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت دراصل ایک امتحان ہے۔انسان کے شعور کا، اس کی دانش کا اور سب سے بڑھ کر اس کی ذمہ داری کا۔ یہ ٹیکنالوجی ہماری تقدیر لکھ سکتی ہے، لیکن اس تقدیر کا قلم ابھی ہمارے ہاتھ میں ہے۔ سوال یہ نہیں کہ مشینیں کیا سوچ سکتی ہیں، بلکہ یہ ہے کہ انسان کب سوچے گا کہ وہ انہیں کس مقصد کے لئے استعمال کر رہا ہے؟
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here