عمران خان کی معافی پر اسرار کیوں ؟

0
64

عمران خان کی معافی پر اسرار کیوں ؟

پاکستانی سیاست میں ان دنوں ایک معروف انٹرویو کی بہت باز گشت ہے جس میں سپہ سالار جنرل عاصم منیر نے ملک کی معروف سیاسی جماعت کے سربراہ عمران خان کی قید سے رہائی کے متعلق معافی کی طرف اشارہ کیا ہے ، معروف صحافی سہیل وڑائچ سے منصوب اس انٹرویو نے سوشل میڈیا پر دھوم مچا رکھی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کی معافی اسٹیبلشمنٹ اور طاقتور لوگوں کے لیے اتنا معنی کیوں رکھتی ہے ؟کیا اس کا مقصد ان کی شخصیت کو نقصان پہنچانا اور ان کی عوام میں مقبولیت کو کم کرنا ہے تو اس کا جواب ”ہاں” میں ہے ، حکومت پاکستان اور کرتا دھرتا اس وقت عمران خان کی مقبولیت سے خائف ہیں آج دو سال سے زائد عرصہ جیل میں رہنے کے باوجود ان کی عوام میں مقبولیت کم نہیںہو رہی ہے ، یہاں تک کہ الیکشن میں بھی زیرو مہم کے باوجود پی ٹی آئی نے نام اور انتخابی نشان تک تبدیل کرتے ہوئے واضح اکثریت حاصل کی تھی جوکہ خان کی مقبولیت کا واضح ثبوت ہے، اب اس مقبولیت میں کمی کی ایک ہی وجہ باقی بچتی ہے کہ عمران خان کے کردار کو ان کے چاہنے والوں میں گرایا جا سکے جس کے لیے ان پر معافی کے لیے دبائو ڈالا جا رہا ہے ، حکومت اور عوام باخوبی اس بات سے آگاہ ہیں کہ عمران خان کبھی بھی معافی نہیں مانگیں گے اور جیل میں رہنا پسند کریں گے پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ بحران کب حل ہوگا کیونکہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ تو آئندہ 10 سال کی حکمت عملی بنائے بیٹھے ہیں ، شہباز شریف کے بعد ممکنہ وزیراعظم محسن نقوی کا نام بھی سامنے آ گیا ہے ، جوکہ بذات خود پی ٹی آئی کے لیے زیر و ہمدردی رکھتے ہیں ۔ عدلیہ از خود نوٹس نہیں لے سکتی ، حتیٰ کہ عمران خان کے خلاف کیسوں پر انصاف کرنے سے بھی قاصر ہے تو لگتا یہی ہے کہ یہ سیاسی بحران کافی عرصہ تک برقرار رہے گا یہاں تک کہ کوئی معجزہ نہ ہو جائے ۔
توشہ خانہ کیس میں عدالت سے تین سال کی سزا پانے کے بعد بانی پاکستان تحریکِ انصاف اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو پانچ اگست 2023 کو لاہور میں اْن کی رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا گیا تھا اور آج اْن کی قید کو دو سال سے زائد عرسہ بیت چکا ہے، پی ٹی آئی کی مقبولیت کے دنوں میں کئی اہم شخصیات اس پارٹی میں شامل ہوئی تھیں۔ مگر نو مئی کے واقعات کے بعد جہاں بعض دیرینہ رہنما پارٹی کا ساتھ چھوڑ گئے، وہیں ایسے رہنماؤں نے بھی پارٹی سے علیحدگی اختیار کی جو سنہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل اس پارٹی کا حصہ بنے تھے۔نو مئی کے واقعات اور اس کے ردعمل میں تحریک انصاف کے زیر عتاب آنے کے باوجود عمران خان اور اْن کی جماعت آج بھی ایک بڑی سیاسی قوت ہیں۔مئی میں جب عمران خان کو ان کی حکومت کی برطرفی کے بعد پہلی بار گرفتار کیا گیا تو ان کے حامیوں نے ہنگامہ آرائی کی، فوج کی چھاؤنیوں اور فوج کی طاقت اور وقار کی دوسری علامتوں پر حملہ کیا۔ ایک سینیئر جنرل کے گھر کو آگ لگا دی گئی اور کچھ مشتعل افراد آرمی ہیڈ کوارٹرز میں داخل ہونے میں بھی کامیاب ہوئے۔اس کے بعد ہونے والا کریک ڈاؤن برق رفتار اور سفاکانہ تھا۔
پی ٹی آئی کی زیادہ تر اعلیٰ قیادت کو اْٹھا لیا گیا اور عمران خان سے علیحدگی کے لیے دباؤ ڈالا گیا، کچھ نے اْن (عمران خان) کی سیاست کی مذمت کی، کچھ نے تاحیات سیاست ہی چھوڑ دی۔اسٹیبلشمنٹ ایک واضح اشارہ دینا چاہتی تھی کہ عمران خان اور ان کی پارٹی ختم ہو چکی ہے۔ خان کے جیل میں ہونے کے ساتھ، جیسے جیسے الیکشن قریب آیا، پارٹی کو دوسرے درجے کی قیادت اور مقامی وفادار کارکنوں نے سنبھال لیا جو شکست خوردہ پارٹی کی جیت کی مہم کو منظم کرنے میں اہم کردار رہے۔انھیں یقین تھا کہ ان کے لیڈر کو دوبارہ اقتدار میں آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، لیکن انھوں نے اپنے ووٹ کے ذریعے ظاہر کیا کہ وہ اپنے لیڈر کو صرف اس لیے نہیں چھوڑ دیں گے کیونکہ فوج اْن کے اِس عمل کی خواہش کر رہی ہے۔عمران خان جب اقتدار سے باہر ہوئے تو وہ ‘افراتفری کے بادشاہ’ بنے جنھوں نے نہ صرف اپنے سیاسی مخالفین بلکہ آرمی اسٹیبلشمنٹ پر بھی اپنا غصہ اتارا، گرفتاری اور دیوار سے لگائے جانے سے قبل عمران خان نے اپنی تقاریر میں دعویٰ کیا کہ انھیں آزاد خارجہ پالیسی پر عمل کرنے کی پاداش میں امریکا کے کہنے پر اقتدار سے نکالا گیا۔پرانے سیاستدانوں کے خلاف ان کے غصے نے انھیں پاکستان کا مقبول ترین لیڈر بنا دیا ہے۔ اور وہ اپنے اس تشخص کو محض اس لیے دھندلا نہیں ہونے دیں گے کہ وہ ایسے ملک کو چلائیں جسے ان کے ہارے ہوئے مخالفین بھی چلانے سے گریزاں ہیں۔یہ عمران خان کے لیے اپنی جنگ جاری رکھنے کے لیے بہترین ماحول ہے، اس صورتحال میں بھی جب وہ ملک کے سب سے مشہور قیدی نمبر 804 کے طور پر اڈیالہ جیل کی ایک کوٹھری میں قید ہیں۔
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here