آئی ایم ایف کا شکنجہ اورہماری عیاشیاں!!!

0
8
شبیر گُل

گزشتہ کئی دھائیوں سے ھم آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسے ہیں۔ جو بھی حکمران آتا ہے ۔انتہائی کڑی شرائط پر قرضوں پے قرضے لیتا ہے۔مگر اپنے خرچے، وزارتیں اور اللے تللے کم نہیں کرتا۔ہر بار ایف ایم ایف کو ادائیگیوں کے لئے دوست ممالک کیطرف دیکھنا پڑتا ہے۔ ارکان پارلیمنٹ، ججز، جرنیل اور بیوروکریٹس کو بڑی بڑی تنخواہیں دی جاتی ہیں جو دوسرے ممالک کے مقابل زیادہ ہیں۔ معشیت انتہائی کمزور ہے ۔ سسٹم زمین بوس ھوچکا ہے۔ سیاسی افراتفری ہے۔ حالات دن بدن ابتر ھورہے ہیں ۔حکمران مہنگی گاڑیاں پرتعیش طرز حکومت اور اخراجات میں زیادتی نے کاروبار زندگی کو مفلوج کردیا ہے۔ ہر حکمران گزشتہ حکمرانوں کو کوستا ہے۔ جو انکی کارکردگی ہے۔ پاکستانی قوم مہنگائی کا سامنا تو کرہی رہی ہے۔ مگر ضروریات زندگی کی چیزوں کو بھی ترستی ہے۔ انکے لئے نہ اچھا نظام تعلیم ہے اور نہ نظام صحت۔ مگر حکمران طبقہ اپنے علاج و معالجہ کے لئے ، دوبئی، لنڈن، امریکہ، سوئٹزر لینڈ اور پیرس کا رخ کرتا ہے۔ان لوگوں کو بیماریاں بھی ایسی لگتی ہیں جن کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں ۔ اس سے بڑی اللہ کی پکڑ اور سزا کیا ھوگی کہ ملک کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے کسی بھی جگہ پبلک کا سامنا نہیں کرسکتے ۔ جنرل باجوہ ھو یا نواز شریف۔ قاضی فائز عیسی ھو یا گزشتہ ادوار کے ججز۔ یہ لوگ فیملی کے ساتھ باہر نہیں نکل سکتے۔ دنیا کے کونے کونے میں ان ہر لعنتیں برستی ہیں ۔یہ کسی ہوٹل میں کھانا نہیں کھا سکتے۔ کسی ٹرین میں سفر نہیں کرسکتے۔کسی کلینک میں نہیں جا سکتے۔ کسی پارک،سڑک پر گھوم نہیں سکتے۔ کسی عام ائیر لائن میں سفر نہیں کرسکتے۔کہیں جمعہ یا عید کی نماز نہیں پڑھ سکتے۔ ان ظالم درندوں کو پوری قوم مجرم ،بددیانت اور ملک کے ساتھ دغا کرنے والا سمجھتی ہے۔اس ساری بدیانتی کے پیچھے ایک بڑا مجرم فوجی وردی میں بیٹھا ہے جو اپنے مہروں کے ذریعے پورے انتخابی عمل کو نیست و نابود کرتا ہے۔ کرپٹ مافیا کو لاتا ہے ۔ جو اس کے گھنانے جرائم کو آئینی تخفظ فراہم کرتے ہیں۔ یہ جرنیل ریٹائر ہوتے ہی ملک چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔ اپنے علیحدہ جزیرے خرید کر بقیہ زندگی جزیرہ نماجیل میں گزارتے ہیں۔ گھٹ گھٹ کر مرتے ہیں۔ پاکستان سے بھاگنے کے بعد انکا ملک سے نہ کوئی تعلق رہتا ہے اور ہی واسطہ۔ جو محب وطن ھونے کی بھڑکیں لگاتے ہیں ملک سے فرار کے بعد انکی آوازیں دب جاتی ہیں ۔ جو اپنے دور اقتدار یا ملازمت میں فرعونی لہجہ اپنانے والے ۔زمین پر اللہ رب العزت کے بندوں کو ذلیل و رسوا کرنے والوں کو ،اپنے وطن میں کہیں پناہ میسر نہیں۔غیروں کے ایجنڈے پر کام کرنے والے۔ غیروں کی زبان بولنے والے ۔ کسی غیر دیس میں بے نامی کی موت مر جاتے ہیں۔ ان حکمرانوں نے عوام کی گردان میں آئی ایم ایف کی غلامی کی زنجیریں ڈال رکھی ہیں۔ ان کی اپنی جائدادیں ملک سے باہر، مفادات بیرون ممالک ۔ کاروبار، لنڈن، دوبئی اور امریکہ میں ہیں۔ یہ لوگ صرف حکمرانی کے لئے پاکستان آتے ہیں۔ لوٹتے ہیں ، بیووقوف بناتے ہیں اور پھر بھاگ جاتے ہیں۔ پچاس کڑوڑ کی کرپشن کو جائز قرار دیتے ہیں ۔ نہ کوئی انہیں پوچھنے والا ہے اور نہ انکا کوئی احتساب۔ قوم کو ذہنی غلام بنا رکھا ھ۔ قوم کو ذہنی غلامی سے نجات کے لئے جماعت اسلامی ان کے دروازوں پر ستر سال سے دستک دے رہی ہے۔جماعت اسلامی ہر مشکل گھڑی میں خدمت خلق کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ زلزلہ ھو یا طوفان۔ فلڈ ھو یا کوئی قدرتی آفت۔ جماعت اسلامی کے کارکن پاکستان کے کونے کونے میں خدمت خلق کے لئے موجود رہتے ہیں ۔ جماعت اسلامی کی فری ڈسپنسریز، فری ہاسپیٹلز، معیاری اور سستی تعلیم کے لئے سکولز ملک کے طول و عرض میں موجود ہیں۔پورے ملک میں پینے کے صاف پانی کے چھوٹے بڑے ہزاروں پراجیکٹس کام کر رہے ہیں۔ جو اندرون سندھ،تھر ،بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں لوگوں کو صاف پانی ، تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔یہ خدمت گزار بے لوث عوامی خدمت کرتے ہیں ۔ لیکن جب الیکشن کے موقع پر ووٹ کی ایمانت کا مرحلہ درپیش ھوتا ہے تو قوم روایتی طور اچکوں اور بددیانتوں کو ووٹ دینا پسند کرتے ہیں۔ ذہنی غلامی،لسانیت ، شخصیت پرستی،فرقہ پرستی ، مسلکی ذہنیت غلبہ پاتی ہے۔پہلے ان نالائقوں کو ووٹ دیتے ہیں اور پھر انہیں گالیا ں۔ قوم ہر بار ان سے دھوکہ کھاتی ہے۔ یہی لوگ بار بار پارٹیاں بدل بدل کر عوام کو بیووقوف بناتے ہیں۔ جو پہلے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ ہولڈر ھوا کرتے تہے۔ بعد میں مسلم لیگ، پھر ن لیگ ، ق لیگ اور اب پی ٹی آئی میں تبدیلی کا علم لیکر نکلے ہیں۔ یہ کالے چہرے ، وہی کالے کرتوت۔ ھم کبھی مساوات ، روٹی کپڑے اور مکان کے نعرہ سے دھوکہ کھاتے ہیں اور کبھی ووٹ کو عزت دو کا نعرہ ہمیں بہکاتااور کبھی تبدیلی کا ۔آپ کبھی اپنے اردگرد سیاسی لوگوں کی ہستی شیٹ کا جائزہ لیں تواندازہ ھوگا۔ کہ گزشتہ پندرہ سال میں یہ سیاسی لوگ کتنی پارٹیاں بدل کر آپ کے سامنے ڈھٹائی سے کھڑے ہیں ۔ شرم انکو مگر نہیں آتی اور عقل ھم اگر نہیں آتی ۔ تو ھمارا ملک ایسے ہی ہچکولے لیتا رہے گا۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی غلامی میں جکڑے رہنگے۔ ھمیں بھی تو اپنے رویہ اور نظریہ کا جائزہ لینا چاہئے۔ کہ قائداعظم اور علامہ اقبال جس نظریہ کی بنیاد فراہم کی تھی کیا ھم اسی نظریہ پر قائم ہیں ۔ یا ھم ووٹ کی عزت، مساوات اور تبدیلی کے جھکڑ اور طوفان میں بہہ گئے ہیں۔ آستانہ عالیہ ایون فیلڈ ،جاتی عمرہ شریف،آستانہ عالیہ بلاول ہاس ۔آستانہ عالیہ بنء گالہ شریف۔ لوگ آستانوں کو انتہائی مقدس اور یہاں کے مکینوں کو ریڈ لائن قرار دیتے ہیں۔تینوں پارٹیوں کے لوگ اپنے لیڈرز کو مرشد پاک کہہ کرپکارتے ہیں۔ایم کیو ایم کے حمایتی الطاف حسین کو پیر کہا کرتے تھے۔ جو ہر وقت نشے میں دھت رہتے تھے۔ آج پیروں کا معیار یہی رہ گیا ہے ۔ان جاہلوں کے کیا کہنے۔ پوری دنیا میں یہ کرپٹ لوگ جہاں بھی جاتے ہیں ۔منہ چھپاتے پھرتے ۔ ان پیروں اور مرشدوں نے قوم کا ستیاناس کردیا ہے۔
ملک کی بربادی میں سیاسی لیڈروں کی ہٹ دھرمی میں جتنا ہاتھ ہے اس سے کہیں زیادہ فوجی اسٹبلشمنٹ کا ہاتھ ہے۔ لوگ نواز شریف اور ان کے خاندان کو “چور” اس لئے کہتے ہیں، کیونکہ انہوں نے لوٹ مار کی ہے۔ ایک غریب ملک کا حکمران عوام کی نمائندگی کیسے کرے گا جو بیرون ملک بینٹلی یا دیگر لگژری گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں۔شریف خاندان ارب پتی ہے ۔ شوگر ملوں، سٹیل ملوں اور بڑے بڑے کاروبار کا مالک ہیں۔ غریب ملک کے نمائندے ہونے کی حیثیت سے انہیں عاجزی اختیار کرناچاہیے ۔ لگثری لائف اسٹائل ، اور درجنوں وزیروں کے لا لشکر کے ساتھ کشکول غریب ملک اور لوگوں کے جذبات کے ساتھ کھیلنا ہے نہ کہ ترجمانی ۔ یہ افسوسناک اور بیشرمی کی انتہا ہے!کہ لوگ روٹی ، تعلیم اور صحت کا ترستے ہیں ۔ اور اشرافیہ وزیروں، مشیروں کے ساتھ بیرون ملک دورے اور مہنگی شاپنگ کرتے ہیں۔یہ حکمران پاکستان پر عذاب ہیں ۔ان سے چھٹکارا کے لئے جماعت اسلامی کاساتھ دیں تاکہ ان قومی مجرموں سے خلاصی ھوسکے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here