آئین اور قانون کے محافظ !!!

0
32

پاکستان کی وکلاء برداری چاہے جنرلوں کی آمریت ہو یا ججوں کی برطرفی کے خلاف منظم وکلاء تحریک ہو یا پھر جسٹس قاضی عیسیٰ کیخلاف جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کی سازشوں کا جھال ہو ہمیشہ بلاتفریق اور بلاامتیاز متحد ہو کر غاصبوں کے خلاف آئین کی بالاتری اور قانون کی بالادستی کی جدوجہد کرتی ہے جس میں کوئی گروپ بازی نظر نہیں آتی ہے۔ پاکستان میں اکثر وبیشتر وکلا برداری کے بارے میں منفی سوچ پیدا کی گئی ہے جو اسٹیبلشمنٹ کا سیاہ نامہ ہے تاکہ ملک میں قانون کی بالادستی اور آئین کی بالاتری قائم نہ ہوپائے۔ یہی وجوہات اس کے پاکستان کا دو مرتبہ آئین منسوخ اور تین مرتبہ معطل ہوچکا ہے جس میں ماسوائے وکلا برداری کے علاوہ کوئی بھی سامنے نہ آیا جبکہ بعض ایس ایم ظفر اور اے کے یہ وہی جیسے غدار وکیلوں نے آئین کے مدمقابل نظریہ ضرورت پیش کرکے ایسا فتنہ پیدا کیا جو دہائیوں تک قائم رہا جس کو آخر کار سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چودھری کی سربراہی میں جولائی2009میں ہمیشہ کے لئے نہ صرف دفن کیا بلکہ آئندہ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کو حکم دیا کہ وہ آئندہ کوئی غیر قانونی حلف اٹھائیں گے تو ان کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ غداری میں سزا ملے گی جو پھانسی تک ہوسکتی ہے تاہم آج کی جدید ریاست میں وکیل اور قانون کی بالادستی دو اہم عنصر بن چکے ہیں جس کے بغیر ریاست کا قائم رہنا ممکن نہیں رہا ہے۔ جو لاقانونیت اور خانہ جنگی کا باعث بنتا ہے لہذا جدید ریاست میں قانون اور آئین لازمی جز بن چکے ہیں جو شہریوں اور اکائیوں کے درمیان معاہدہ کہلاتا ہے جس کے وکلا محافظ ہوتے ہیں جب کسی ریاست میں آئین اور قانون ہوگا تو اس کے لئے وکیل ہوگا جو قانون کا محافظ کہلاتا ہے۔ اس لئے پاکستان کو ایک لاقانونیت کی شکار ریاست کے لئے آئین کو بار بار توڑا گیا جس سے وکیل کو ہٹایا گیا جو اب پاکستان کا مضبوط ترین عنصر بن چکا ہے جو ایک جج کی شکل میں قانون کی حفاظت کرتا ہے۔ بہرکیف امسال وکلاء تنظیموں کی دعوت پر پاکستان جانا پڑا جس میں وکلا برداری مختلف کانفرنسوں سیمیناروں، ظہرانوں، اعشائیوں میں شرکت کا موقع ملا۔ سب سے پہلے پاک امریکن وکلاء برائے حقوق کے وفد راقم الحروف سمیت ڈاکٹر شاہد مہر اور گل زمین خان پر مشتمل کو سندھ ہائیکورٹ بار کے صدر سلیم منگریو، جنرل سیکرٹری عامر وڑائچ سندھ بارکونسل ایگزیکٹو کمیٹی کے وائس چیئرمین نعیم قریشی ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل قاضی بشیر نے اپنی اپنی محفلوں میں سندھی قدیم کلچرل ٹوپی، اجرک، تاحیات بار کی ممبر شپ سے نوازا، پنجاب میں لاہور ہائیکورٹ اور لاہور ڈسٹرکٹ کورٹ بار کے صدر اشتیاق احمد خان اور رانا انتظار نے بار کی تاحیات ممبر شپ اور شیلڈ عطا کی۔ سپریم کورٹ بار کے ایڈیشنل سیکرٹری ملک شکیل خان نے سالانہ بار کی ڈائری پیش کی جبکہ سپریم کورٹ بار کے صدر عابد زبیری نے ہمارے لیے دیئے گئے ظہرانے میں شرکت کی جس سے ہمارے وفد کی بہت بڑی حوصلہ افزائی ہوئی کہ جو کچھ ہم امریکہ میں پاکستان میں آئین کی بالاتری اور قانون کی بالادستی کے لئے اقدام اٹھاتے ہیں ان کو پاکستان میں پذیرائی دی گئی ہے جو ہمارے لئے باعث فخر گزرا ہے۔ بہرحال موجودہ دورے میں ہماری رہنمائی اور معاونت میں سپریم کورٹ کے سیز وکلاء سابقہ اٹارنی جنرل طلعت طلب سابقہ ڈپٹی اٹارنی جنرل، عاشق رضا، سپریم کورٹ بار کے سابقہ صدر یاسین آزاد، لاہور ہائیکورٹ بار کے سابقہ صدر رانا ضیاء الرحمان، سابقہ جنرل سیکرٹری بابر مرتضٰے خان سابقہ سپریم کورٹ بار کے سیکرٹری ملک شمیم پیش پیش تھے جن کے بغیر یہ تمام سیمینار کانفرنسیں ظہرانے اور اعشائیے ممکن نہ تھے۔ مختصر پاکستان میں وکلا برداری کی موجودگی میں ملک میں کوئی مہم جوئی نہیں ہوسکتی ہے۔ جس کے لئے سازشیں جاری ہیں جو موجودہ ناگہانی حالات و واقعات کا فائدہ اٹھا کر طالع آزمائی کی جاسکتی ہے۔ جس کو موجودہ وکلا برداری کبھی برداشت نہیں کریگی۔ جو اب جنرل مشرف سے بھی زیادہ طالع آزمائوں کا حشر بُرا کرے گی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here