یہ کیسی بستی ہے جس میں سکونِ دل ہی نہیں
یقیں کو پاتے کہاں، ہم تو وسوسوں میں رہے
کبھی زمین کو ٹھہرا ہوا نہیں پایا
تمام عمر یہاں ہم تو زلزلوں میں رہے
دشمنوں کو سمجھ رہا ہوں دوست
یہ حماقت بھی کیا حماقت ہے
کوئی دانا نظر نہیں آتا
میرے چاروں طرف جہالت ہے
جہل و افلاس کے سائے میں پلا ہے مشرق
قص عظمتِ مشرق میں سناں کیسے؟
نوح شرق میں پڑھتا ہوں سرِ بزم تو پھر
نغمے مشرق کے فضائل کے سناں کیسے؟
کوئی بھی خالق نہیں ہے عالمِ تخلیق کا
کس طرح میں مان لوں اب ڈارون کی بات کو
عقل میری جعفری تسلیم کرتی ہی نہیں
رات کو میں صبح کہہ دوں اورصبح رات کو
٭٭٭
ز فرق تا قدمش ہر کجا کہ می نگرم
کرشمہ دامنِ دل میکشد کہ جا اینجاست
یہ کتاب گلدست گلہائے صد رنگ ہے، اس میں مذہبی، علمی، ادبی اور سماجی شخصیات کے خاکے ہیں جو نہایت دلچسپ اور معلوماتی ہیں۔مجھے بے حد خوشی ہے کہ میری جنم بھومی پونچھ میں علم و ادب کے چراغ روشن ہیں اور وہ آج بھی شبِ تیرہ و تاریک میں اُجالوں کا سراغ لگانے میں مشغول ہیں۔ اِن چراغوں میں ایک چراغ دلشاد اریب ہے۔
٭٭٭















