دہشت گردی کیخلاف جنگ…!!!

0
156

پچھلے چند ماہ سے پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔قبائلی اضلاع، سوات ،بنوں اور کے پی کے میں دوسرے علاقے دہشت گردی کی سرگرمیوں کا نشانہ بنے ہیں ۔ افغانستان سے امریکی انخلا کا منصوبہ پاکستان کے کردار کی وجہ سے پر امن انداز میں انجام تک پہنچا۔پاکستان نے ماضی کے تجربات کو پیش نظر رکھ کر خطے کے اہم ممالک کو امن مذاکرات کا حصہ بنایا۔ روس ، چین، ایران ،ترکی اور پاکستان نے مل کر خطے کا نیا کردار وضع کیا۔امریکہ نے پر امن طور پر اپنے دستے افغانستان سے واپس بلائے،اچھا یہ ہوا کہ افغان طالبان نے اس موقع پر تحمل اور دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی تصادم سے گریز کیا۔ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کو انتقال اقتدار کی شرط کہا جا سکتا ہے ۔ان مذاکرات میں افغان طالبان نے بہت سے وعدے کئے ۔ایک یقین دہانی عالمی برادری کو یہ کروا ئی گئی کہ افغان سر زمین کسی دوسرے ملک کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لئے استعمال نہیں ہو گی ۔ افغان طالبان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان میں سرگرم تشدد پسند گروہوں کی سرگرمیوں سے اغماض برتا ۔پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے امن دشمنوں کے خلاف کارروائی کی تو افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کے ساتھ معاہدے کے لئے ثالثی کی پیشکش کی۔ پاکستان کے لئے یہ آسان تھا کہ اس پیشکش سے معذرت کر کے رہے سہے عسکریت پسندوں کے خلاف موثر کارروائی کر کے ان کا خاتمہ کر دیتا لیکن افغان طالبان کو خطے کی ترقی میں شامل رکھنے کی خاطر ان کی خاطر ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی حامی بھر لی۔ٹی ٹی پی نے شروع میں فائر بندی معاہدے کا احترام کیا،پاکستان نے کئی عسکریت پسند رہا کئے۔ لیکن پھر یکطرفہ طور پر فائر بندی کا معاہدہ ختم کرنے کے بعد تحریک طالبان پاکستان نے خیبر پختونخوا میں دہشت گردانہ سرگرمیاں شروع کر دیں ۔یہی نہیں افغانستان میں پاکستان کے سفارتی اہلکاروں پر قاتلانہ حملہ ہوا، چمن سرحد پر افغان فورسز نے ایک ہفتے کے دوران دو بار فائرنگ کی جس سے سات شہری اور ایک سکیورٹی اہلکار جاںبحق ہوئے، بنوں میں انسداد دہشت گردی کے حراستی مرکز میں دہشت گردوں نے محافظ اہلکاروں کو یر غمال بنا لیا۔اسلام آباد میں جمعہ کے روز خود کش حملے نے ملک کی سکیورٹی کے ذمہ دار اداروں کو آگے بڑھ کر دہشت گردوں کے خاتمہ کی راہ دکھائی ۔ جنوری 2022 سے جولائی 2022 تک دہشت گردی کے حملوں کی کل تعداد کو ریکارڈ کرنے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کے پی میں 307، بلوچستان میں 189، سندھ میں 12 اور اسلام آباد اور پنجاب میں 3، 3 حملے ہوئے۔ اس سال جولائی تک مجموعی طور پر 514 دہشت گرد حملے ہوئے۔دستاویز میں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کی وجوہات میں افغانستان میں بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں اور مقامی دہشت گرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہوں کی موجودگی کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی شامل ہے کہ پاکستان کی مغربی سرحد پر دہشت گرد تنظیمیں اپنی سرگرمیوں کو بڑھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ مزید برآں، افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد دہشت گرد تنظیموں نے جدید ترین ہتھیار اور جنگی مشینری حاصل کی جس سے ان کی رات کے آپریشن کی صلاحیت میں اضافہ ہوا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ دہشت گرد تنظیمیں پاکستان کے بڑے شہروں میں قدم جمانے کے لیے خود کو دوبارہ منظم کر رہی ہیں۔سوات اور وزیر ستان میں عوامی مظاہرے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر چکے ہیں۔کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے زیادہ تر پر تشدد کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس گروپ کے رہنما اور کمانڈر، جو کہ افغان طالبان کی شاخ اور اتحادی ہیں، نے افغانستان میں پناہ لے رکھی ہے۔وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ “اگر ٹی ٹی پی پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کی ذمہ داری قبول کر رہی ہے تو یہ افغان حکومت کے لیے سنگین تشویش کا باعث ہونا چاہیے کیونکہ ان کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ پاک فوج نے سوات ، وزیرستان اور کراچی میں کامیاب آپریشن کر کے امن قائم کیا ہے۔فوج کے نئے سربراہ جنرل سید عاصم منیر ادارے کے حقیقی آئینی کردار کا عزم رکھتے ہیں ،وہ پاک فوج کو غیر سیاسی رکھ کر ملک میں دہشت گردی جیسے مسئلے کو جڑ سے اکھاڑنے کے خواہاں ہیں۔ان کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے کا عزم وطن عزیز میں امن کی بحالی کا موجب ہو گا۔ طالبان نے دنیا کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ دہشت گرد تنظیموں کو افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، انہیں اپنے وعدوں کو پورا کرنا چاہیے۔”پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف برسوں تک فوجی کارروائیاں کی ہیں، جس کی وجہ سے ٹی ٹی پی کے ارکان افغانستان فرار ہو گئے اور وہاں پناہ گاہیں قائم کیںلیکن اگست 2021 میں طالبان کی اقتدار میں واپسی نے ٹی ٹی پی کے ارکان کو حوصلہ دیا ہے اور وہ سرحد کے دوسری طرف کارروائیاں کر رہے ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here