29 سال بعد بھٹو خاندان یکجا ہونے کو تیار ؟ رکاوٹ کون ؟
کیا بھٹو خاندان کی نئی نسل کوئی “سر پرائز “دے سکتی ہے ؟
کیا ذولفقار علی بھٹو جونئیر، بلاول بھٹو ، اور فاطمہ بھٹو کے درمیان ملاقات ہو چکی ہے ؟؟
سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کے صاحبزادے اور خاتون وزیراعظم کے بھائی میر مرتضی بھٹو 20 ستمبر 1996 کو اپنے گھر 70 کلفٹن کے قریب پولیس کے ساتھ مبینہ جھڑپ کے بعد اپنے چار ساتھیوں سمیت ہلاک ہوگئے، یہ کوئی عام واقعہ نہیں تھا، اس واقعہ کا پس منظر نہ صرف پراسرار ہے بلکہ 25 سال گزرنے کے باوجود مرتضی بھٹو کے قاتلوں کا سراغ نہیں لگایا جاسکا، حالانکہ اس واقعہ کے بعض کرداروں سے انٹرویو کے بعد اس بات کا اندازہ کرنا کوئی مشکل نہیں ہے کہ مرتضی بھٹو کے قتل میں کون ملوث تھا۔
17 ستمبر کو کراچی پولیس میر مرتضی بھٹو کے قریبی ساتھی علی سنارا کو گرفتار کرلیا، جس کی وجہ سے مرتضی بھٹو اپنے مسلح ساتھیوں کے ہمراہ انہیں مختلف تھانوں میں تلاش کر رہے تھے وہ جس تھانے پر جاتے وہاں پولیس اہلکاروں کو دھمکیاں دیتے اور زدوکوب کر رہے تھے، پولیس کے لیے ایک مشکل صورتحال تھی ایک طرف وزیراعظم کا بھائی تھا اور دوسری طرف پولیس فورس کی عزت۔ صورتحال اس وقت خراب ہونا شروع ہوئی جب مرتضی بھٹو نے CIA گارڈن میں ایک SP کو گریبان سے پکڑ کر اس پر اسلحہ تان لیا، انہیں علی سنارا کی تلاش تھی، جب یہ صورتحال اس وقت کے DIG کراچی ڈاکٹر شعیب سڈل کے علم میں آئی تو وہ خاصے ناراض ہوئے، انہوں نے پولیس فورس کو آئندہ ایسے کسی غیر قانونی اقدام پر سخت کارروائی کی ہدایت کی، ڈاکٹر سڈل نے وزیر داخلہ نصراللہ بابر اور وزیراعلی سندھ عبداللہ شاہ مرحوم کو صورتحال سے آگاہ کیا حالانکہ وزیر داخلہ نصراللہ بابر جو مرتضی بھٹو کی سرگرمیوں اور رویہ سے آگاہ تھے، ڈی آئی جی کراچی اور وزیراعلی سندھ سے مرتضی کے ساتھ نرم رویہ اور احتیاط سے نمٹنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ 20 ستمبر 1996 کو مرتضی بھٹو نے پریس کانفرنس میں کہا کہ وزیراعلی عبداللہ شاہ، ڈی آئی جی کراچی ڈاکٹر شعیب سڈل اور SSP واجد درانی ان کے قریبی ساتھی علی سنارا کو قتل کروانا چاہتے ہیں، مرتضی بھٹو نے اس پریس کانفرنس میں اور بھی سخت باتیں کیں اور پھر وہ سرجانی ٹاون میں اپنی پارٹی کی کارنر میٹنگ سے خطاب کرنے پہنچ گئے، اس دوران اعلی پولیس حکام نے طے کیا کہ مرتضی بھٹو کے قافلے کی واپسی پر اسے روک کر بعض مطلوب افراد کو گرفتار کیا جائے اور ان کے پاس موجود اسلحہ بھی تحویل میں لے لیا جائے کام مشکل تھا، واجد درانی اس آپریشن کی نگرانی کر رہے تھے، اس کام کے لیے “اے ایس پی شاہد حیات اور رائے طاہر اس ٹیم کی قیادت کر رہے تھے، پولیس نے جیسے ہی مرتضی کے قافلے کو روکا ان کے محافظوں نے گاڑی کو گھیرے میں لے لیا، ابھی بات ہو رہی تھی کہ ایک فائر ہوا، بس اندھیرے میں کوئی 10 سے 15 منٹ تک جو فائرنگ ہوئی اس میں مرتضی کے کئی ساتھی زخمی ہوئے، فائرنگ رکنے کے بعد جب پولیس گاڑیوں کے قریب آئی تو معلوم ہوا کہ مرتضی بھٹو گردن کے قریب گولی لگنے سے شدید زخمی ہیں، فوری طورپر قریب ہی ڈاکٹر غفار جتوئی کے اسپتال مڈ ایسٹ لایا گیا، فائرنگ کی اطلاع پر میں پہلے جائے وقوع پر پہنچا اور پھر مڈ ایسٹ اسپتال کے اس کمرے کے قریب پہنچ گیا جہاں مرتضی کی جان بچانے کی کوشش کی جا رہی تھی حالانکہ انہیں اگر فوری طورپر جناح اسپتال پہنچا دیا جاتا تو ان کے بچنے کے امکانات زیادہ تھے۔ ڈاکٹروں کی ٹیم ان کی جان بچانے کی کوشش کر رہے تھے اور تھوڑی دیر بعد اطلاع آئی کی مرتضی بھٹو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہوگئے، ہر طرف کہرام برپا ہوگیا، غنوی بھٹو سینہ کوبی کر رہی تھیں، صنم بھٹو کے شوہر ناصر حسین بھی آبدیدہ تھے، ہر طرف پراسراریت پھیلی ہوئی تھی، رات بیت رہی تھی 12 بجے کے قریب وزیراعلی سندھ عبداللہ شاہ اسپتال پہنچے، انہوں نے ڈی آئی جی شعیب سڈل کو اپنی گاڑی میں بٹھایا، میں کچھ فاصلے سے یہ منظر دیکھ رہا تھا، گاڑی میں ہونے والی گفتگو کا تو مجھے معلوم نہیں مگر دونوں کی گفتگو کے انداز اور باڈی لینگویج سے تلخی کا بہ خوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
سابق صدر فاروق لغاری مرحوم کے ایک انٹرویو کو اگر بغور سنا جائے تو ان کی گفتگو سے خاصی حد تک قاتلوں تک پہنچنے میں آسانی ہوسکتی تھی۔
صدر لغاری اپنے انٹرویو میں کہتے ہیں کہ وزیر داخلہ نصراللہ بابر نے انہیں فون پر پہلے مرتضی کے شدید زخمی ہونے اور پھر ہلاکت کی خبر دی، ان کا کہنا تھا کہ بے نظیر بھٹو اپنے بھائی سے بہت محبت کرتی تھیں، بے نظیر بھٹو، مرتضی کی ہلاکت سے ایک مہینہ قبل آصف زرداری کے ساتھ میرے پاس آئیں کہا مرتضی نے پریشان کر رکھا ہے، وہ شراب پی کر ہمیں گالیاں دیتا ہے، ناپسندیدہ لوگوں نے اسے گھیر رکھا ہے۔
فاروق لغاری نے اپنے اس انٹرویو میں بتایا تھا کہ آصف زرداری بہت غصے میں تھا، اس نے واضح طورپر کہا کہ اب وہ رہے گا یا پھر میں، مگر میں نے بے نظیر بھٹو کو سمجھایا کہ مرتضی تمہارا بھائی ہے، تھوڑا ضدی ہے اسے کوئی وزارت دے کر اور اہمیت دے کر منالو ورنہ تمہارا نقصان زیادہ ہوگا، وہ صرف ایک ایم پی اے ہے تم وزیراعظم ہو۔
21 ستمبر ہوچکی تھی، بے نظیر بھٹو ننگے پیر زاروقطار روتی ہوئی مڈ ایسٹ اسپتال پہنچی، سب غم سے نڈھال تھے، ناہید خان بے نظیر کو سہارا دے کر گاڑی تک لائیں اور وہ بلاول ہاوس روانہ ہوگئیں، اس قتل کے محرکات کا اندازہ اس وقت ہوا جب تقریبا 2 مہینے بعد 5 نومبر 1996 کو بے نظیر بھٹو کی حکومت انہیں کی جماعت کے دیرینہ رکن اور صدر پاکستان فاروق لغاری نے برطرف کردی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ 29 سال بعد جب ذولفقار علی بھٹو مرحوم کے بھانجے کی بیٹی کی شادی کی تقریب میں بلاول بھٹو اپنی خالہ صنم بھٹو کے ہمراہ پہنچے تو وہاں ، فاطمہ بھٹو انکے بھائی بھی موجود تھے ، بلاول نے فاطمہ سے احول پوچھا انکے بچے کو گود میں لیا ، یہ تما بھٹوز کزن ملنا چہاتے ہیں ، مگر رکاوٹ کہیں اور ہے جو سب جانتے ہیں ۔
٭٭٭














