اپنے گزشتہ کالم میں ہم نے کرّہ ارض کے حالات کے حوالے سے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے پیش بینی کی تھی کہ آنے والا وقت پُر امن نظر نہیں آرہا ہے، 13 جون سے جاری اسرائیل ایران تنازعے کے مضمرات کا بدترین مرحلہ گزشتہ ویک امریکہ و صدر ٹرمپ کا ایرانی نیوکلیئر سائٹس پر 7 بنکر بسٹرز و 125 بمبار جہازوں سے حملہ ہمارے خدشات کی توثیق کیساتھ اس حقیقت کی بھی تائید ہے کہ اپنی برتری قائم رکھنے کے ایجنڈے کیلئے ہر حد تک جانے سے گریز نہیں کریگا۔ ایرانی نیوکلیئر فیسیلیٹز کی تباہی کے بعد ٹرمپ کا خطاب اور ایران کو مذاکرات کی ہدایت تو دوسری جانب اسرائیل میں 14 امریکی طیاروں کی لینڈنگ جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ میزائل بھجوائے گئے ہیں امریکی ایڈمنسٹریشن کی اپنی پالیسیوں کی دو رُخی تصویر ہے، یہی نہیں ٹرمپ کا دو ہفتے میں فیصلے کا اعلان اور تیسرے دن ایران پر حملہ دوغلے پن کا ثبوت ہی تو ہے۔ یہ حقیقت بھی سامنے آچکی ہے کہ 6 مخصوص سیکورٹی کونسل افراد نے ایران پر حملے کا فیصلہ کیا جبکہ امریکی آئین کے مطابق کانگریس کو ایسے فیصلوں کا اختیار ہے، صدر اس کا مجاز نہیں۔ خبر تو یہ بھی ہے کہ حملے کی پہلے ہی ایران کو اطلاع ہو چکی تھی، ایک ایرانی صحافی کے مطابق فردو، طنز اور اصفہان کی ایٹمی تنصیبات، افزودہ یورینیم اور افراد کو حملے سے پہلے ہی ہٹا لیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ IAEA نے کسی قسم کے تابکاری اثرات یا نقصانات کی تردید کی ہے۔ ایران پر حملے کے فوری بعد ٹرمپ کی تقریر میں مشرق وسطیٰ و عرب اور خلیج میں امریکی اڈوں پر حملہ نہ کرنے کی تنبیہ کرتے ہوئے بد ترین انجام کا عندیہ دیدیا تھا۔ایران نے اسرائیل کی جانب سے پہلے حملے کے بعد سے ہی محدود وسائل اور ٹاپ عسکری، قومی و سائنسی قیادت کی شہادت کے باوجود ناکوں چنے چبواء دیئے تھے اور مظلوم فلسطینیوں پر جبر و قتال اور بربادی کر کے خود کو ناقابل تسخیر سمجھے جانے والے نیتن یاہو اور اسرائیل کی میا مر گئی تھی۔ اپنی ناکامی و بربادی پر انہیں اس کے سواء کوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ امریکہ و مغربی سہولتکاروں کے پیر پکڑیں اور یہی ہوا ٹرمپ نے جو آمرانہ فطرت اور خبروں میں رہنے کی شناخت رکھتا ہے ایران کو دایاں دکھا کر بایاں مار دیا۔ مذاکرات کا لارا دے کر حالات کو اسرائیل کے حق میں استوار کرتا رہا جو امریکی حملے پر منتج ہوا۔
ہمیں اس سچائی پر کوئی شُبہ نہیں کہ ایرانی قیادت اور قوم اپنے جذبے، وحدت اور عزم و استقلال اور ہر مصیبت کا سامنا کرنے میں بے مثال ہے لیکن کیا موجودہ صورتحال میں اور کیا گریٹر اسرائیل کے ایجنڈے پر طے شدہ اسرائیل اور امریکہ و مغربی ممالک سے اپنے محدود وسائل اور محض میزائلوں کی مدد سے ایران کامیاب ہو سکے گا۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایران اس وقت اپنی بقاء کیلئے اسرائیل سے یہ جنگ لڑ رہا ہے اور خطے میں اسرائیل و مغرب کے مسلم دشمن کردار کو ختم کرنے کیلئے بر سرپیکار ہے۔ ایران کی جانب سے خطے میں موجود امریکی ہوائی بیسز اور فوجی ٹھکانوں پر میزائل حملے کیا جانا امریکہ و اسرائیل کے لئے ناقابل برداشت ثابت ہوا۔ خطے میں جتنے ممالک میں امریکی ڈیفنس فیسیلیٹز ہیں مسلم ممالک میں جن کی براہ راست یا بالواسطہ مذہبی یا خطہ کے حوالے سے ہمدردی کا جواز بنتا ہے لیکن موجودہ ایرانی کارروائیاں اور آبنائے حرمز کو بند کرنا مسئلے کا حل نہیں ہوسکتا تھا۔ حالات مزید گھمبیر ہونے سے ایک جانب عرب، مشرق وسطیٰ اور پاکستان سمیت متصل ممالک کیلئے پریشانی، حالات میں کشیدگی، آبنائے حرمز کی بندش سے دنیا بھر میں تیل کے بحران اور مہنگائی کسی کے بھی حق میں نہیں۔ ایران کے امریکی بیسز پر اٹیک کے بعد صدر ٹرمپ نے امن کے قیام کی مبارکباد دیتے ہوئے ایران کو پھر مذاکرات کی دعوت دیدی دوسری جانب اسرائیل کو ایران کے ردعمل پر اپنی پسپائی صاف نظر آرہی تھی، پھر یوں ہوا کہ رائٹرز کے مطابق نیتن یاہو ٹرمپ کے سامنے مودی کی طرح سیزفائر کے لیے گڑ گڑانے پر مجبور ہوگا۔امریکی نائب صدر قطری حکمران کے توسط سے ایران کو راضی کیا گیا اور سیزفائرکا مراحل شروع ہوا۔اسرائیل نے ایران پر حملے کرکے خلاف ورزی کی جو نیتن یاہو کا شیوہ ہے۔ تاہم ٹرمپ کی جھاڑ کھا کے اس کے ہوش ٹھکانے آئے۔ ہمارا کالم آنے تک امید ہے کہ جنگ بندی ہو چکی ہوگئی کیونکہ یہ امن کے قیام کے لئے بھی مفید ہے اور ذاتی طور پر ٹرمپ کے لیے بھی کہ امن کا نوبل پرائز ان کا ہدف ہے۔
ہمارا مطمع نظر یہ ہے کہ وقت کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے امن کے قیام کیلئے مذاکرات کا راستہ ہی واحد حل ہے، جنگیں صرف تباہی ہی لاتی ہیں اور ان کے اثرات دشمنوں ہی نہیں دوستوں پر بھی ہوتے ہیں۔ موجودہ صورتحال و کشیدگی گریٹر اسرائیل کے قیام کیلئے ذریعہ تو بن سکتی ہے مسلم اُمہ کے حق میں ہر گز نہیں۔ حالات کی سنگینی کو سمجھنا ہی وقت کی اہم ضرورت ہے تاہم اسرائیل خصوصاً نیتن یاہو اور اس کے مغربی سرپرستوں کے مسلم دشمن ایجنڈے کے پیش نظر امن کے لئے زیادہ امید نظر نہیں آتی۔بقول شاعر مشرق، ثبات ایک تغیر کوہے زمانے میں۔
٭٭٭٭٭٭











