قرض دار ملک کے سگھڑ خاندان!!!

0
114
رعنا کوثر
رعنا کوثر

پاکستانی اور ہندوستانی عورتیں کتنی سگھڑ ہوتی ہیں ان کی زندگی میں قناعت پسندی ہوتی ہے۔ ان کو اپنا گھر چلانا ہوتا ہے اور اس گھر کو چلانے میں ان کو بہت جدوجہد کرنا پڑتا ہے۔اس جدوجہد میں بہت کچھ شامل ہوتا ہے اس جدوجہد میں انہیں دیکھنا ہوتا ہے کے ان کے گھر کا بجٹ کیسے چلے گا۔ آج کل تو حالات بدل گئے ہیں خواتین بھی جاب کرتی ہیں وہ انکم آتی ہیں تو بچت کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ گھر خرچ کرنے میں بھی آسانی ہوتی ہے لیکن اب سے پہلے ہمارے والدین کے زمانے میں تو انکم ہوتی ہی ایک تھی اسی ایک آمدنی سے گھر کا خرچا بھی چلتا تھا مگر میں اچھا کھانا پینا ہوتا تھا اور انہی گھر میں مہمان بھی آتے تھے گھر میں توڑ پھوڑ بھی ہوتی تھی۔ اس کا خرچا بھی نکلتا تھا گھر میں بیمار بھی ہوتے تھے اور ڈاکٹر کی فیس بھی نکلتی تھی۔ بچوں کی فیسیں بھی دی جاتی تھیں بچے بھی کثیر تعداد میں ہوتے تھے اور ان کی پڑھائی کا انتظام ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ دوسرے خرچے بھی تھے کہیں اسے خاندان میں شادی ہے تو ظاہر ہے کہ اچھا تحفہ دیا جائے گا۔ کہیں سالگرہ عقیقہ وغیرہ ہو رہا ہے کبھی اپنے گھر میں تقریب ہو رہی ہے خواتین ایک بجٹ بنا کر اپنے وزیراعظم یعنی اپنے شوہر کو دکھا دیتی تھیں۔ دونوں کی صلح مندی سے گھر کا بجٹ نہ صرف پاس ہوتا تھا بلکہ بہت خوبی سے چلتا بھی تھا کبھی کبھی تنگی بھی آجاتی تھی گوشت کی جگہ دال پک جاتی تھی۔ کپڑے کم خریدے جاتے تھے رکشے کی بجائے بس میں سفر شروع ہوجاتا تھا مگر ایسا نہیں ہوتا تھا کے گھرکو ختم کر دیا جائے۔ یہ سوچا جائے کے آنے والے سال میں کس سے قرضہ لیا جائے گا۔ اور کس کے آگے دست سوال دراز ہوگا حالانکہ خاندان میں امراء بھی پائے جاتے تھے۔ اور بہت سارے لوگ ملک سے باہر بھی رہتے تھے مگر نہ تو خاندان کا سربراہ یہ سوچتا تھا اور نہ ہی بیگم یہ سوچتی تھیں کے اب کے سے کوئی بجٹ نہیں بنے گا۔ گھر کو خوب لوٹا جائے گا اور جب گھر میں پیسہ نہ ہوگا تو مالی امداد کے لئے دوسروں سے رقم مانگی جائے گی۔ جب ایک عام عورت گھر کا خرچ کسی سے ادھار لئے بغیر چلا لیتی ہے چاہے تنخواہ کم ہو۔ اخراجات زیادہ پھر بھی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کے خوداری سے کام لیں اور کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں کیونکہ ایک دفعہ مالی امداد کی عادت پڑ جائے تو ختم نہیں ہوتی سر جھکتا چلا جاتا ہے۔ دوسرے کے دبائو میں آکر کام کیا جاتا ہے۔ اپنی خودی اپنا نفس کسی پر بھی بس نہیں ہوتا اور اولاد بھی دوسروں کے انسان تلے دبی چلی جاتی ہے۔ جو دوسرے کہیں جو دینے والے کہیں وہی کرنا پڑتا ہے۔ نہ اپنے پیروں پرکھڑے رہ سکتے ہیں نہ اپنا حق مانگ سکتے ہیں۔ ایک ملک بھی ایک بہت بڑا گھر ہے جو بہت سارے افراد سے بنتا ہے جس کا سربراہ ایک ایسی عورت کی طرح ہوتا ہے جو گھر چلا رہی ہوتی ہے اس کے عوام اس کی اولاد کی طرح ہوتے ہیں ۔ میں نے ایک عورت کی مثال اسی لیے دی کے جب گھر چلتے ہیں تو بجٹ بنتا ہے اور پھر گھر کے اخراجات چلتے ہیں۔ ہمارے ملک کے سربراہ اپنے ملک کو اس خوبی سے کیوں نہیں چلا سکتے کے کسی سے مانگنے کی ضرورت نہ ہو۔ خود کفیل ہوں کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here