گزشتہ ہفتے اپنے کالم میں قوم کا مرثیہ تحریر کرتے ہوئے ہم نے کرب و بلا کی کیفیت میں ڈوبے وطن عزیز کو درپیش دو ایشوز پر بالتفصیل اظہار کیا تھا۔ اولاً بڑھتی ہوئی دہشتگردی، ثانیاً ملک میں بڑھتی سیاسی عدم استحکام کی صورتحال اور اس کے نتیجے میں گرتی ہوئی معاشی تنزلی، ہماری سیاسی اشرافیہ (مقدر و مخالف) اور عسکری و فیصلہ ساز ذمہ داروںسے التجاء یہی تھی کہ حالات کے تناظر میں قومی و عوامی مفاد کے خاطر من و تو کے جھگڑوں سے بالا تر ہو کر میدان عمل میں اُترا جائے اور وطن عزیز کو امن و بہتری کی راہ پر قومی یکجہتی سے لایا جائے۔ ہفتۂ رفتہ کی سرگرمیاں بالخصوص سیاسی ڈرامہ بازیاں اور بڑھتی ہوئی دہشتگردی کی وارداتیں اس امر کا اظہار ہیں کہ ہمارے سیاسی رہنمائوں کو ملک و قوم سے زیادہ اپنے مفادات اور اغراض زیادہ عزیز ہیں۔ سیاسی گند دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے اور تسلسل اقتدار و حصول اقتدار کی خاطر ہر وہ حربہ آزمایا جا رہا ہے جو نہ ملک کے امن کے مفاد میں ہے نہ ہی عوام کے حق میں کسی بہتری کی نشاندہی کرتا ہے۔ پچھلے ہفتہ میں خیبرپختونخواہ میں تقریباً ہر روز ہی دہشتگردی کی وارداتیں ہوتی رہی ہیں، بدترین صورت یہ رہی کہ CTD کے مراکز پر دہشتگردی کے نتیجے میں نہ صرف سکیورٹی اہلکار شہید اور زخمی ہوئے ہیں بلکہ مراکز پر موجود سینئرز کو یرغمال بنا لیا گیا ہے ہمارے ان سطور کے تحر یر کیے جانے تک بنوں میں دہشتگردوں نے نہ صرف CTD کو قبضہ میں لیا ہوا ہے بلکہ کسی بھی قسم کی جوابی کارروائی کو مسدود کر دیا ہے۔ یہی نہیں دہشتگردوں نے افغانستان جانے کیلئے ہیلی کاپٹر فراہم کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے ذرائع کے مطابق وزارت خارجہ نے افغان ناظم الامور کو بلا کر احتجاج کیا ہے لیکن کیا یہ امر یا اقدام ایک نیو کلیائی ملک کے شایان ہے جس کی عسکری قوت کو بھی دنیا کی بہترین فوج شمار کیا جاتا ہے۔ دہشتگردی کی یہ بڑھتی ہوئی صورت خصوصاً معاشی ابتری و سیاسی عدم استحکام کے پیش نظر کس قدر تشویشناک ہے، اس کا احساس نہ حکومتی ٹولے کو ہے نہ ہی ملک کے فیصلہ سازوں کو ہے۔ غیر جانبداری یا عدم مداخلت کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہوتا کہ طوفان میں گھری ہوئی کشتی کو لہروں کے دارو مدار پر چھوڑ دیا جائے ملاح صرف دیکھتا رہے ۔عمران خان نے پنجاب و پختونخواہ کی اسمبلیوں کی تحلیل 23 دسمبر کو کرنے اور قومی اسمبلی سے اپنے ارکان کے استعفوں کی سپیکر کے سامنے تصدیق کا اعلان کیا تو 24 گنٹے کے اندر وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کا عمران خان کی سابق آرمی چیف پر تنقید کے حوالے سے رد عمل عجیب بلکہ بدلتے ہوئے رحجان کا پیش خیمہ نظر آیا۔ چوہدری پرویز الٰہی کے الفاظ کہ جنرل باجوہ کو بُرا کہنا احسان فراموشی ہے، ان کیخلاف بولنے والوں کو وہ (پرویز الٰہی) منہ توڑ جواب دینگے، اس امر کی نشاندہی تھے کہ چوہدریوں کی سیاست کا رُخ مڑنے والا ہے۔ یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں کہ چوہدریوں کی سیاست اسٹیبلشمنٹ کی رضا پر متعین ہوتی ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں چوہدری شجاعت کی وزارت عظمیٰ، زرداری کے دور میں پرویز الٰہی کا ڈپٹی پرائم منسٹر اور حال ہی میں عمران خان کے ہمراہ وزیراعلیٰ پنجاب متعین ہونا اس حقیقت کے واضح ثبوت ہیں۔ پرویز الٰہی کے باجوہ کے حوالے سے بیان کے بعد مونس الٰہی نے لیپا پوتی کی کوشش کی لیکن سیاست کا رُخ نیا موڑ لیتا نظر آیا۔
سیاست کا موڑ واضح بدلتا ہوا نظر آرہا ہے گزشتہ دو روز میں پنجاب کی سیاست میں جو مد و جزر پیدا ہوئے، زرداری کا لاہور میں پڑائو، چوہدری شجاعت سے زرداری و شہباز کی ملاقاتیں اور اس کے بعد ایک جانب زرداری کے بھرے ہوئے تھیلوں کی سرگرمیاں تو دوسری جانب گورنر پنجاب کا وزیراعلیٰ پنجاب کو اعتماد کا ووٹ لینے کا حکم اور ساتھ ہی ن لیگ و پی پی پی کا رات کے دس بجے سیکرٹری اسمبلی کو تحریک عدم اعتماد جمع کرانا بے معنی ہر گز نہیں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیکرٹری پنجاب اسمبلی رات دس بجے دفتر میں کیوں موجود تھا جبکہ ہماری اطلاع کے مطابق قبل ازیں سیکرٹری چار بجے وزیراعلیٰ و اسپیکر سے میٹنگ میں تھا۔ رات دس بجے قرارداد عدم اعتماد وصول کرنے کا اقدام بھی سوال کا متقاضی ہے کہ سیکرٹری اسمبلی وزیراعلیٰ و اسپیکر کو جواب دہ ہوتا ہے اس تما متر صورتحال کا تجزیہ ایک ہی ہو سکتا ہے کہ عمران خان کے جلد انتخاب کے انعقاد کے ایجنڈے کو ناکام بنایا جائے اور قابض امپورٹڈ ٹولہ بر سر اقتدار رہے سچ یہ ہے کہ اقتدار کے بھوکے اچھی طرح جانتے ہیں کہ عمران کے مقابلے میں انتخاب جیتنا ان کیلئے جوئے شیر لانا ہوگا۔ عمران کی عوامی مقبولیت و حمایت کے باعث غیر حمایتی قابضین 31 دسمبر کو اسلام آباد کے لوکل باڈی الیکشن مؤخر کرانے کے چکر میںہیں اور وزارت داخلہ نے الیکشن کمیشن کو نئی مردم شماری کی وجہ بنیاد بنا کر اس حوالے سے خط لکھ دیا ہے۔
عام انتخابات کے التواء کیلئے الیکشن کمیشن بھی اپنا کھیل کھیلنے میں پیچھے نہیں اور مردم شماری کی آڑ میں مسلط ہونے والے غیر نمائندہ حکمرانوں کا ترجمان بنا ہوا ہے۔ آئین و قانون کی آڑ میں پی ڈی ایم (خصوصاً نواز لیگ) اور پیپلزپارٹی جو کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں، افسوس ہے کہ عدالتیں بھی اس کا نوٹس نہیں لیتی ہیں۔ یہی نہیں عمران خان کیخلاف مختلف حیلوں، الزاموں کی بناء پر بلا حیل و حُجت مقدمات کی سماعت کرنے پر عمل پیرا ہوتی ہیں۔ فارن فنڈنگ، توشہ خانہ سے عمران کی مبینہ بیٹی کے مقدمات کی سماعتوں پر عدالتیں متحرک نظر آرہی ہیں لیکن حکمران چوروں، قاتلوں اور بھگوڑوں کو کُھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ خلاف ضابطہ وزیراعظم کے بیٹے کو حفاظتی ضمانت دیدی جاتی ہے اور عمران خان کی قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر بھی اس کے مؤقف کے مطابق درج نہیں ہوتی اور عدالت عظمیٰ از خود نوٹس نہیں لیتی۔ امپورٹڈ حکومت کے پنجاب اسمبلی کے حوالے سے حالیہ تماشے پر عدالتیں ہی نہیں فیصلہ ساز بھی چُپ سادھے ہوئے ہیں یہ کھیل تماشے ملک کیلئے کس قدر نقصان دہ ہیں اداروں کو اس کا ادراک نہیں یا یہ سب جانتے بوجھتے نظر انداز کر رہے ہیں۔ حکومت میں شامل بزدل چوہے تو اپنی اغراض و سروائیول کیلئے ہر وہ کھیل کھیلنے پر آمادہ ہیں جو ان کے مفاد میں ہوں لیکن ملک و عوام اور قانون کی حکمرانی کے ذمہ داروں کو چوہے بلی کے اس کھیل کو ختم کرنے کا کوئی خیال نہیں یا پھر اس کے پیچھے بھی کوئی راز ہیں کہ بدترین سیاسی و معاشی حالات اور عوامی اُمنگوں کے برعکس صورتحال کو برقرار رکھا جائے۔ آنے والے چند دن اس امرکی وضاحت کر دینگے کہ مستقبل کا نقشہ کیا ہوگا۔ ملک کو کھانے والے یہ حکمران چوہے عمران خان جیسے بلے سے کب تک بھاگتے رہے، چوہے بلی کا یہ کھیل ختم ہو نہ ہو ہم فیض احمد فیض کی زبان میں ”پرورشَ لوح وقلم کرتے رہیں گے”۔
٭٭٭