شعیب ملک بابر اعظم پر پھٹ پڑے!!!

0
74
حیدر علی
حیدر علی

پاکستانی شائقین کرکٹ کا بارہا یہ سوال رہا ہے کہ کیا پاکستانی کھلاڑی صبح کا ناشتہ کرکے نہ آئے تھے کہ اُن سے بیٹنگ بھی صحیح طور پر نہ ہورہی تھی، جب وہ چھکا مارا کرتے تھے تو بال باؤنڈری لائن عبور کرنے کی بجائے اُس کے حدود میں ہی لینڈکر جاتی تھی ، اور نتیجا”وہ کیچ آؤٹ ہو جاتے تھے، بھائی چائے کا ایک کپ پی کر آنے سے او ڈی آئی کا میچ نہیں جیتا جاسکتا، اِسکے لئے ضروری ہے کہ صبح کے ناشتے میں دوتوس مکھن کے ساتھ، مفین ، ایک بیگل مارمیلیڈ سے لبریز، دہی کی ایک کپ یا چیز کیک ، ایک کیلا، دو انڈے کا آملیٹ ، چائے یا کافی شامل ہوتاکہ جب بیٹ کی مار بال پر لگے تووہ آسمان پر پرواز کرنے لگے اور چھکے کا اسکور لازمی ہو۔ کھیل کے بعد لنچ بھی تگڑا ہوجس میں باسمتی رائس اور روٹی، بھونا مٹن ، تندوری چکن ، ماش کی دال اور پھر ڈیزرٹ میں کسٹرڈ پڈنگ، ساری چیزیں خالص گھی سے تیار کی جائیں. رات کے کھانے کا بھی کھلاڑیوں کیلئے اچھا ہونا لازمی ہے ، کیونکہ رات کے کھانے سے ہی دِن بھر کی توانائی کی افزائش ہوتی ہے۔ اِس لئے اِس میں چکن بریانی جو خالص گھی سے پکی ہو ، شامی کباب ، سلاد اور ڈیزرٹ میں بادامی فرنی شامل ہو ، کھانے بعد ہر کھلاڑی کو دودھ کا ایک گلاس پینے کیلئے دیا جائے اگر کوئی کھلاڑی یہ خدشہ ظاہر کرے کہ اِن غذاؤں کو کھانے سے اُس کے وزن بڑھنے کا خدشہ ہے تو اُسے ٹورنامنٹ ختم ہونے کے بعد ڈائیٹنگ کرنی چاہئے۔
مجھے علم نہیں کہ پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں کو ہر روز کتنے گھنٹے آرام کرنے کیلئے دیئے جاتے ہیں ، جس طرح کی سخت محنت اُنہیں کرنی پڑتی ہے ،اُس کیلئے ضروری ہے کہ وہ کم ازکم9 گھنٹے سویا کریں، ہر کھلاڑی کیلئے ہوٹل کا ایک کمرہ مخصوص ہو اور صرف ایک ویزیٹر کو ایک دِن میں ایک گھنٹے کیلئے آنے کی اجازت ہو ،کچھ لوگوں نے اِس تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ بعض کھلاڑی کے درجنوں رشتہ دار اُس کے ساتھ آکر ایک ہی کمرے میں مقیم ہوجاتے ہیں، جس سے کھلاڑی کو آرام کا موقع نہیں ملتا،اِس صورتحال کا تدارک لازمی ہے۔ قطع نظر کھلاڑیوں کے گیسٹرونومیکل پہلو کے اُن کی مالی حالت کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ پاکستانی کرکٹ کے کھلاڑیوں کو معاوضہ بہت زیادہ سنہرا تو نہیں لیکن کھوٹا بھی نہیں ہوتا، معاوضہ کے لحاظ سے کھلاڑیوں کو تین گریڈ میں تقسیم کیا گیا ہے، گریڈ اے میں 3 سینئر کھلاڑی ، بی میں 8 کھلاڑی اور سی میں 7 کھلاڑی شامل ہیں، گریڈ اے کے کھلاڑیوں کی تنخواہیں 46 لاکھ روپے سالانہ ہیں، جبکہ گریڈ بی کے کھلاڑی 28 لاکھ اور گریڈ سی کے کھلاڑیوں کو صرف 19 لاکھ روپے کی سالانہ تنخواہوں پر ٹرخا دیا جاتا ہے،پاکستانی کھلاڑیوں کی میچ فیس بھی انتہائی قلیل ہے، اُنہیں ایک ٹیسٹ میچ کھیلنے پرساڑھے تین لاکھ، او ڈی آئی کے کھیلنے پر ڈھائی لاکھ اور ٹی20پر ڈیرھ لاکھ کی رقم دی جاتی ہے لیکن بعض کھلاڑیوں کی سُپر لیگ سے آمدنی کروڑوں تک پہنچ جاتی ہے۔ پاکستانی کھلاڑیوں کا معاوضہ اگر بھارت کے کھلاڑیوں سے کیا جائے تو آسمان زمین کا فرق نظر آئیگا،بھارت کے اے گریڈ کے کھلاڑیوں کی تنخواہیں 7 کروڑ ، بی گریڈ کے کھلاڑیوں کی 5 کروڑ اور سی گریڈ کے کھلاڑی 3 کروڑ کی رقم وصول کرتے ہیں۔
بنگلہ دیش کے کرکٹ کے کھلاڑیوں کی تنخواہیں پاکستانی کھلاڑیوں سے نسبتا”کچھ زیادہ ہے۔وہاں
کے ایک مرکزی وزیر نے ابھی حال میں ہی یہ دعوی کیا کہ بنگلہ دیش کا ہر کرکٹر 50 سے 60 لاکھ ٹاکا سالانہ کماتا ہے لیکن افغانستان کے کھلاڑیوں کی تنخواہیں سب سے کم ہیں جو ماہانہ 400 سے 700
ڈالر تک کے رینج میں ہے۔
کرکٹ کی دنیا میں پاکستان جو اِن دنوں موضوع بحث بنا ہوا ہے وہ اِس کی ٹیم کے مڈل آرڈر کے انتہائی حد تک کمزور ہونے کا شاخسانہ ہے، جلتی آگ پر ایندھن پھینکنے کا جو کارنامہ انجام دیا ہے وہ خود ٹیم کے سابقہ کھلاڑی شعیب ملک اور جاوید میاں داد ہیں. شعیب ملک یہ ٹوئٹ کرنے سے باز نہ رہ سکے کہ ” کب ہم دوستی اور اپنی پسند یا ناپسندیدگی کے کلچر سے چھنکارا حاصل کر سکینگے. اﷲتعالی صرف دیانتدار کی مدد کرتا ہے.”اِسی کے ساتھ 40 سالہ شعیب ملک کی ایک چھ ماہ قبل ویڈیو انٹرویو سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی ہے جس میں اُنہوں نے بابر اعظم پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ وہ کھلاڑیوں کے سلیکشن میں صلاحیت کے بجائے دوستی کو ترجیح دیتے ہیں،اُنہوں نے بابر اعظم سے اپنی طویل گفتگو کا بھی حوالہ دیا جس میں بابر اعظم نے اُنہیں ریٹائرمنٹ لینے کا مشورہ دیا تھا، شعیب ملک نے اُنہیں جواب دیا تھا کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ وہ ریٹائرمنٹ لے لیں تو پی سی بی واضح طور پر اِس کی تصدیق کرے۔شعیب ملک نے مزید کہا کہ پی سی بی کو یہ بھی توفیق نہیں ہوتی کہ وہ ریٹائرڈ ہونے والے کھلاڑیوں کو کسی تقریب میں ٹرافی یا سووینیئر پیش کرکے اُن کی حوصلہ افزائی کرے۔
جاوید میانداد نے بھی پی سی بی پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ وہ پرانے کھلاڑیوں کی خدمات سے فائدہ نہیں اٹھارہی ہے جس کی وجہ کر پاکستانی بیٹر کو یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ وہ کس گیند پر ہٹ کریں،اُنہوں نے مزید کہا کہ حقیقی معنوں میں وہ یہاں بیکار بیٹھے ہیں. ذاتی طور پر اُنہیں کچھ بھی نہیں چاہیے ماسوائے اِسکے
کہ اُن کے تجربے سے فائدہ اٹھایا جائے، اُنہوں نے کہا کہ وہ ہمیشہ پاکستان کو اول سمجھتے ہیں، پاکستان کو جس طرح کی شکست ہوئی ہے، اُس سے اُن کے جذبات مجروح ہوئے ہیں، پاکستان ٹیم میں اُن کی موجودگی ٹیم کیلئے ایک اثاثہ ثابت ہوگی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here