سیاسی عمل میں مذاکرات ایک لازمی جز ہوتا ہے اور افہام وتفہیم کے لئے مذاکرات کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھنا چاہئے۔ یہی جمہوریت کا حسن ہوتا ہے۔ فسطائیت میں البتہ اس کی گنجائش قطعاً نہیں ہوتی آمر ہمیشہ اپنے کو سو فیصد درست اور دوسروں کو سراسر غلط ہی سمجھتا ہے۔ پاکستانی سیاست میں آجکل یہ رویہ بانی تحریک انصاف اس رویہ کی ایک حالیہ مثال ہیں حالیہ اسلئے کہ کئی سال پہلے ایک اور قائد تحریک بھی تھے جو سمجھتے تھے کہ جو انکے منہ سے نکلا وہ لفظ اٹل ہے اس قائد کا نام الطاف بھائی تھا جو بوریوں کی پیمائش کی بات کرتے تھے جن میں لاشیں ڈال کر ندی نالے کے کنارے پھینک دیتے تھے۔ جن کی تقریر سننے والے کانپتے تھے کہ الطاف بھائی کہیں ناراض ہو کر انکا نام نہ لے لیں۔ آجکل وہ قائد لندن کی گمنام گلیوں میں تن تنہا اداس بیٹھے گا رہے ہیں کہ اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئیگا۔ بغیر کسی کی دل آزاری کئے گزارش ہے کہ دنیا میں جو انسان بڑا بولتا ہے اس کا حشر خراب ہوتا ہے اس لئے بڑے بوڑھے کہتے تھے بڑا بول نہ بولو ،بڑا نوالہ کھا لو، جمہوری سیاست میں جب تک مذاکرات کا مسئلہ نہیں ڈالا جائیگا ہانڈی بنے گی نہیں۔ بچپن میں بھی ہم نے دیکھا جو بچہ منہ پھلائے بیٹھا رہا وہ کلاس میں تنہا ہی رہ گیا تھا۔سیاست فن ہے ممکنات کا جو یہ بات نہیں سمجھتا اسے سیاست میں رہنا نہیں چاہئے۔کسی بھی جماعت میں چاہے وہ سیاسی ہو یا غیر سیاسی ڈسپلن کا ہونا نہایت ضروری ہے لیکن اگر گھر میں بھی چھوٹے بڑے کا فرق نہ رہے تو وہ گھر نہیں چل سکتا اور خاص کرکے جو تنظیم ایک جدوجہد کے راستے سے گزر رہی ہو۔ اس تنظیم میں ڈسپلن کا ہونا بہت اہمیت رکھتا ہے اور پھر ہر تنظیم کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ طریقہ کار ہوتا ہے کیونکہ کوئی بھی تنظیم قوائد اور ضوابط کے بغیر نہیں چل سکتی۔ بدقسمتی سے پاکستان ایک طویل عرصہ تک آمریت کے زیر اثر پلتا رہا ہے جس میں آمر کا بولا ہوا لفظ حرف آخیر ہوتا ہے اسلئے سیاسی جماعتوں میں بھی وہی رحجان سرائیت کر گیا ہے لیکن کچھ جماعتیں اب سیاسی نہیں رہی ہیں وہ(CULT)یا جنونی جماعتیں بن گئی ہیں، پہلے سے رحجانات متحدہ میں پائے جاتے تھے اب یہ تحریک انصاف میں نظر آرہے ہیں۔ بانی تحریک کے علاوہ اس جماعت میں کوئی سیاستدان نظر نہیں آرہے ہیں ،ایسا محسوس ہوتا ہے سارے ذاتی ملازمین ہیں جسے خان چاہے اسے آگے کر دیا جسے چاہا باہر پھینک دیا ہے ،اسی دربار سے جس میں بڑے بڑے گدی نشین بھی خوار پھرتے ہیں۔ انکی کوئی حیثیت نہیں رہی۔ ان گدی نیشن صاحب نے بھی ہر گھر کا پانی پیا کوئی بڑی سیاسی جماعت نہیں چھوڑی، تقریباً سب میں شمولیت اختیار کی، چھوڑی ہے اور جس آخری جماعت کو اپنا فائنل اسٹاپ سمجھا اس نے بھی قدر نہیں جانی لیکن اب واپسی کا کوئی راستہ نہیں رہا۔ اب تو وہ حال ہے کہ ”چارہ گروں نے اور بھی درد کا دل بڑھا دیا، کوئی دوا نہ دے سکا شورہ دعا دیا”۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ طاقتور حلقوں نے فیصلہ کیا ہے کہ کچھ سیاسی جماعتوں کو اقتدار حوال کرکے کچھ سیاسی گروہوں کو اقتدار والوں کی مخالفت میں احتجاج پر لگا دینا ہے تاکہ اقتدار میںآنے والے آپے سے نہ نکلیں کیونکہ ”عمران خان تجربہ کے بعد طاقتور حلقہ بھی محتاط ہو گیا ہے کہ سارے انڈے ایک ٹوکری میں نہیں ڈالنے ہیں، کوئی پتہ نہیں کس انڈے میں سے مرغا نکل کر حملہ کردے لیکن اس طریقہ سے ملکی معاملات میں استحکام پیدا نہیں ہوگا۔ آئی ایم ایف بھی غیر مطمئن رہے گی، نیا پیکیج نہیں ملے گا۔ جس طرح ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت لبنان کو مشرق وسطیٰ کے پیرس سے کولمبو(سری لنکا) بنا دیا گیا تھا۔ ویسا ہی منصوبہ بین الاقوامی سطح پر محسوس ہوتا ہے، پاکستان کیلئے بنایا جارہا ہے۔ خدا کرے میرا یہ احساس غلط ثابت ہو لیکن یہ بات آپ سب کو یاد رکھنی چاہئے کہ پاکستان واحد مسلم مملکت ہے جس کے پاس ایٹمی توانائی ہے اور یہ بات اسرائیل کو کبھی ہضم نہیں ہوگی اور اگر آپ لوگ آپس میں بڑھتے رہے تو پھر حالات بدتر سے بدترین ہوتے جائیں گے بظاہر تو یہ محسوس ہو رہا ہے کہ مرکز میں اور چاروں صوبوں میں حکومتیں تشکیل دی جارہی ہیں لیکن اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ حالات معمول کے مطابق ہوگئے ہیں تو یہ انکی غلط فہمی ہے کیونکہ ایک عجیب سا تنائو ہے اور جب تک ملک آئی ایم ایف سے نئے پیکیج کا اعلان نہیں کرتا تو حالات سدھرنے کا کوئی یقین نہیں ہوگا اور عمران خان نے آئی ایم ایف کو خط لکھ کر ملک دشمنی کا ایک اور ثبوت دے دیا ہے کیونکہ اگر اب پاکستان نے ڈیفالٹ کیا تو پھر ایک ہی راستہ رہے گا، پاکستان کیلئے اس دلدل سے نکلنے کا پھر انہیں ایک بڑا پیکیج اسی صورت میں ملے گا جب وہ اپنے ایٹمی اثاثے کا کچھ حصہ بین الاقوامی ایٹمی ریگولیٹری ادارے کے حوالے کریگا اور یہ ہوگا آغاز رول بیک کا۔ یہ جو بات میں رقم کر رہا ہوں ہوسکتا ہے یہ بہت بڑی بات ہو اور مجھے اس کی بھاری قیمت بھی ادا کرنی پڑے لیکن تحریک انصاف کے حمایتیوں کو آنکھیں کھو لنی چاہئیں کہ اس مفرور اور فرعونی مزاج کے آدمی کی حمایت کرکے وہ اپنے ملک سے ایسی بڑی دشمنی مول رہے ہیں کہ تاریخ انہیں معاف نہیں کریگی ،آنے والی نسلیں بھی انہیں نہیں بخشیں گی۔
٭٭٭٭٭