پچھلی تحریر میں ایک واقعہ لکھا کہ المدنی مسجد نیویارک کے ایک نمازی نے سوال کیا تھا چونکہ شب برآت قرآن مجید کے الفاظ نہیں ہیں۔ میں نے بتایا کہ یہ عربی لیلة البرآت کا ترجمعہ کیا ہے جس طرح ہم صلواة کا ترجمہ نماز کرتے ہیں، میرا کالم پڑھ کر ایک کاریگر کا فون آیا پھر مسیج لکھ بھیجا واہ مفتی صاحب آپ کو اتنا بھی پتہ نہیں کہ نماز پڑھنے کا حکم اللہ نے دیا ہے اور مجھے فصل لربک وانحر کا سکرین شارٹ بھیج دیا اور اوپر سے اپنی علمی دھاک بٹھانے کے لئے نجانے کیا کیا لکھ دیا حقیقتاً میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ میں نے لکھا کیا ہے اور موصوف سمجھے کیا ہیں۔ دوران تعلیم ایک واقعہ پڑھا تھا اس کی یاد تازہ ہوگئی، حضرت امام ابوحنیفہ رحمت اللہ علیہ کے شاگرد رشید قاضی ابو یوسف رحمتہ اللہ عصر کے بعد درس فقہ دیا کرتے تھے۔ سامعین کثیر تعداد میں شریک ہوئے۔ اپنی علمی پیاس بجھاتے اور آپ اپنی بہترین کارکردگی پیش کرتے ایک دن ایک صاحب بہت بڑا پگڑ باندھے قیمتی جبہ زیب تن کئے حلقہ درس میں تشریف لائے اور آکر پہلی صف میں بیٹھ گئے۔ قاضی صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی گفتگو کو محتاط پیرائے میں کہنا شروع کردیا۔ پہلے وہ کھلا ڈلا بول رہے تھے۔ صاحب جبہ وپگڑ کچھ نہیں بولا بس سنتا رہا اور چلا گیا تقریباً تین دن تک وہ چپ بیٹھتا اور چلا جاتا قاضی صاحب کی احتیاط جاری رہی، چوتھے دن آپ نے فیصلہ کیا کہ آج تو میں پوچھ کر رہوں گا۔ کہ یہ صاحب کون ہیں۔ اور ان علمی لیول کیا ہے آپ مغرب کی نماز کا وقت ارشاد فرما رہے تھے۔ آپ نے فرمایا ہماری نماز مغرب کا تعلق غروب آفتاب سے ہے سورج چونکہ دوسری د نیا میں طلوع ہو رہا ہوتا ہے۔ اس لئے اس کی روشنی کافی دیر تک رہتی ہے فقہ ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک ہم صرف سورج کے غروب ہونے پر نماز مغرب ادا کرسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی آپ نے چہرہ صاحب جبہ وپگڑ کی طرف پھیرا اور پوچھا آپ کی کیا رائے ہے کہا یہ تو ٹھیک ہے سورج غروب ہوگیا نماز مغرب کا وقت شروع ہوگیا قاضی صاحب آپ یہ بتائیں اگر سورج غروب ہی نہ ہو تو ہم کس وقت مغرب کی نماز پڑھیں گے۔ قاضی صاحب رحمتہ اللہ کتنی دیر تک اس کا سراہا اس کا شب شبا دیکھتے رہے۔ فرمایا وہ قیامت کا دن ہوگا۔ آپ درس میں تشریف لایا کریں۔ خاموشی سے درس سنا کریں آپ کے لئے درس میں چھپ بیٹھنا عبادت ہے۔ سو اے میرے بھائیو ساتھیوں اور بچو سب سے پہلے تحریر کو غور سے پڑھیں۔ اور پھر سمجھنے کی کوشش کریں اس کے بعد سوال کریں آپ کو جواب مل جائے۔ اگر ایسے جاہلانہ سوال کریں گے۔ تو جواب کیا ملے گا جواب دینے والا یہ کہہ کر دادا خاطبھم الجاھلون قالو سلاما۔ آگے گزر جائے گا۔ اور یہ حکم ربی ہے کسی کی تحریر کو اپنے معنی نہ پہنائیں لکھنے والے کے مدعا کو سمجھو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کہنا چاہتا ہے میرے بڑے بھائی نے ایک صاحب سے کہا نقشہ لے آئو، وہ رکشہ لیکر آگیا۔
٭٭٭