تو کیا جنرل ضیا الحق پیپلز پارٹی ختم کر سکے؟ ضیا دور میں کارکنوں کو ٹکٹکی لگا کر کوڑے مارے گئے صحافیوں کو قید و بند کی اذیتیں برداشت کر نا پڑیں بھٹو کو تختہ دار پر چڑھایا گیا ،بینظیر اور نصرت بھٹو کو ملک بدر ہونا پڑا کھر اور جتوئی جیسے بڑے بڑے جاگیردار الگ سے پریشان ہوئے بھٹو کو الیکٹرانک میڈیا جو کہ اس وقت نو بجے کے خبرنامہ تک ہی محدود تھا سے مکمل آٹ کر دیا گیا پرنٹ میڈیا پر خبروں کو سینسر کر دیا جاتا تھامگر پھر جب جہاز پھٹا تو پیپلز پارٹی کے ورکرز کھمبیوں کی طرح اگ آئے بھٹو کی پھانسی کے بعد تین دفعہ پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی مسلم لیگ کے نواز شریف جو فوج کی نرسری میں پلے بڑھے انہی کی پیداوار تھے انکو طیارہ سازش کیس میں جنرل سید پرویز مشرف نے بالکل فارغ البال قرار دیکر دس سال کے لیے نہ صرف ملک بدر کر دیا تھا بلکہ ان پر کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر ایک معاہدے کے تحت پابندی بھی لگا دی گئی تھی الیکٹرانک میڈیا جو مادر پدر آزاد تھا وہاں پر بھی نواز شریف کو بوٹ کی نوک پر رکھا گیا مگر جنرل مشرف کے استیعفی دیتے ہی سب کچھ واپس ہوگیا تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے پر پابندی ختم ہونے کیساتھ ساتھ نواز شریف نے تیسری مرتبہ وزیر اعظم کے عہدے کا حلف بھی اٹھایا طاقتور جنرلز کے نام لیکر جلسوں میں انکو کوسنے والی پارٹی کے سربراہ کا بھائی آج وزیر اعظم کی کرسی پر متمکن ہے اور تین سال کے لیے آنے والوں کو دھمکی دینے والا صاحب صدارت ہے شاہ زین بگٹی کا دادا فوجی اپریشن میں کام آیا شاہ زین آج ریاست کا لاڈلہ ہے مرتضی بھٹو نے ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد کی پھر بھی پاکستان واپس آیا اور الیکشن بھی لڑاایم کیو ایم کے خلاف نوے کی دہائی میں اپریشن ہوئے پھر حکومت میں واپسی بھی ہوئی آج وہ حکومت کا اٹوٹ انگ ہے پاکستان کی سیاست میں اتار چڑھا آتے رہتے ہیں پاکستانی سیاستدانوں پر برا اور اچھا وقت بھی آتا رہتا ہے اور یہ تب تک آتا رہے گا جب تک کوئی ڈٹ کر اسٹیبلشمنٹ کے آگے کھڑا نہیں ہوتا عمران خان نے ہمت کی ہے اس لئے کہ اس کے پاس ستر فیصد عوامی طاقت ہے یہ ہمت شیخ مجیب نے بھی کی تھی گرفتار بھی ہوا مگر ڈٹ گیا آخر کار الیکشن کروانا پڑا نتیجہ عوامی حمایت میں ہی آیا پر سیاستدانوں کی بدقسمتی اور فوج کی ہٹ دھرمی کہ پاکستان کا یہ حصہ اعلیحدہ ہو گیا مگر اب حالات ایسے نہیں ہیں سوشل میڈیا کا دور ہے پابندیاں لگنے کی صورت میں عوام کی سمجھ کیساتھ ساتھ یوٹیوبرز کے بینک بیلنس میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے خان کو یہ لوگ اگر منظر سے مکمل طور پر ہٹا بھی دیتے ہیں تو وہ اپنا کام کر چکا اس نے عوام کو حقیقی آزادی کا راستہ دکھا دیا ہے آج نہیں تو کل یہ ہونا ہی ہے امریکہ کو بھی مہذب معاشرہ بننے کے لیے بہت سی ماراماری کا سامنا کرنا پڑا تھا یہ ارتقائی عمل ہے ہمیں بھی اس عمل سے گزرنا ہے اور ہم گزر رہے ہیں انشااللہ ایک دن کامیابی ہمارا مقدر ہوگی عوام کے آگے کسی کی نہیں چلتی زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو جتنی جلدی یہ بات ہماری طاقت کے ایوانوں میں بیٹھے فرعونوں کی سمجھ میں آجائے اتنا ہی سفر آسان اور جلد ختم ہو جائے گا ورنہ اپنے کئے کا حساب تو یہاں اور آخرت میں تو دینا ہی ہے۔
٭٭٭