فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ!!!

0
44

فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ!!!

محترم قارئین! امّ المئومنین سیدہ خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنھا آپ کا مقام ومرتبہ کسی بھی صاحب سمجھ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ اعزاز بخشا ہے کہ آپ رسول اللہۖ کی سب سے پہلی اور انتہائی وفادار زوجہ ہیں۔ اس طرح آپ مئومنوں کی پہلی ماں ہیں۔ دس رمضان المبارک کا حساب آپ کا یوم وصال ہے کیونکہ آپ رضی اللہ عنھا کا وصال مبارک ہجرت مدینہ سے پہلے ہی ہوگیا تھا آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ عورتوں میں سے سب سے پہلے اسلام کی دولت سے سرفراز ہوئیں اور کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوئیں اس کے بعد ساری زندگی اسلامی تعلیمات کی تابعداری میں گزار دی۔ انتہائی صابرہ، شاکرہ اور وفا شعار بیوی کا کردار ادا کیا۔ ہر طرح کی مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا بیوی ہونے کے ناطہ سے آپ نے ایک مثالی کردار ادا کیا جو ہماری اسلامی بہنوں کے لئے ایک مشعل راہ ہے کبھی شکایت کا لفظ زبان پر نہیں لائیں۔ جس طرح کے حالات پیش آئے اسلام کی خدمت سے قدم پیچھے نہیں کیا۔ حالانکہ وہ حالات بڑے کٹھن اور مشکل تھے۔ دولت کے حصار میں پلنے والی عورت گھر میں فاقے برداشت کرتی رہی اور ماتھے پر شکن نہیں لائی اور آداب واحترام میں ذرہ برابر فرق نہیں آنے دیا۔ اور پھر ایسی عورت کہ دولت وحسن جس پر ناز کرتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنھا نے سب کچھ اسلام کی خدمت میں رسول اللہۖ کے قدموں پر نچھاور کردیئے تھے۔ آپ رضی اللہ عنھا کا مقام یہ ہے کہ آپ رسولوں کے سردارۖ کی زوجہ، خاتون جنت رضی اللہ عنھا کی والدہ حسنین کریمین کے نوجوانوں کے سرداروں رضی اللہ عنھا کی نانی ہیں نکاح کے وقت حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنھا کی عمر مبارکہ چالیس سال تھی اور رسول اللہۖ کی عمر مبارکہ پچیس سال تھی جبکہ رسول اللہۖ کی پہلی شادی تھی اور حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنھا کا نکاح پہلے ابوہالحہ بن نیا میں بن زرارہ سے ہوا تھا اس سے ان کے دو فرزند ہوئے۔ ایک کا نام ہند اور دوسرے کا نام ہالہ تھا۔ اسی سے کفیت ابوہالہ تھی ورنہ نام تو مالک تھے اس کے بعد سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا نے عتیق بن عایذ مخزومی سے نکاح کیا تھا۔ اس سے ایک لڑکی پیدا ہوئی تھی اس کانام ہند رضی اللہ عنھا تھا بعض کا قول ہے کہ ایک لڑکا اور ایک لڑکی تھی اس کے بعد سیدہ خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ۖ سے نکاح کیا تھا اور ہند رضی اللہ عنھا رسول اللہۖ کی ربیبہ تھی سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا عاقلہ، فاضلہ اور فرزانہ عورت تھیں۔ زمانہ جاہلیت میں آپ کو طاہرہ کے لقب سے ملقب کیا جاتا تھا عالی نسب اور بڑی مالدار تھیں۔ ابوہالہ اور عتیق کے بعد بہت سے صفا دیدواشراف قریش خواستگاری رکھتے تھے کہ وہ ان سے نکاح کرلیں مگر آپ نے کسی کا پیغام قبول نہ کیا۔ مگر رسول اللہۖ کے لئے خود اپنے آپ کو پیش کرتے ہو نکاح کی پیش کش کی۔ آپ علیہ السّلام نے اس بات کا تذکرہ اپنے چچائوں سے فرمایا: اسکے بعد حضور اکرمۖ حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ خویلد بن اسد کے پاس تشریف لائے اور ان کو پیام دیا۔ اور سیّدہ رضی اللہ عنھا کے ساتھ نکاح فرمایا: آپ رضی اللہ عنھا کا حق ہر انتیس جوان اونٹ تھے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ بارہ اوقیہ سونا تھا اہول سیر بیان کرتے ہیں کہ سّیدہ رضی اللہ عنھا نے خواب میں دیکھا تھا کہ آسمانی آفتاب ان کے گھر اتر آیا ہے۔ اور اس کا نور اس کے گھر سے پھیل رہا ہے یہاں تک کہ مّکہ مکرمہ کا کوئی گھر ایسا نہیں جو اس نور سے روشن ہوا ہو۔ جب وہ بیدار ہوئیں تو یہ خواب اپنے چچا کے لڑکے واقہ بن نوفل سے بیان کیا اس نے اس خواب کی تعبیر یہ بتائی کہ نبی آخرالزمان علیہ الصّلوہ والسّلام تم سے نکاح فرمائیں گے۔
سیدہ خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنھا وہ پہلی عورت ہیں جن پر اسلام کی حقیقت روشن ہوئی تو انہوں نے حضور اکرمۖ کی تصدیق کی اور اپنا تمام مال ورز آپ علیہ الصّلوة والسّلام کے قدموں پر قربان کردیا۔ تمام اولاد خواہ فرزند ہوں یا دختران سب انہیں سے پیدا ہوئے سوائے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے جو سیّدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنھا کے بطن سے پیدا ہوئے۔ آپ رضی اللہ عنھا کی رسول اللہۖ سے چار بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں حضرت زینب، رقیہ، ام کلثوم اور فاطمة الزہراء رضی اللہ عنھنّ ہیں۔ تقریباً پچیس سال آپۖ کی شریک حیات رہیں تقریباً پینسٹھ سال کی عمر میں ہجرت سے تھوڑی سے پہلے وصال فرما گئیں۔ آپ رضی اللہ عنھا کی وفات کے سال کا نام عام الحزن ہے۔ آپ رضی اللہ عنھا کا مزار پر انوار مکہ مکرمہ میں جنتّ المعلّیٰ قبرستان میں ہے۔ آپ کی بارگاہ میں اللہ تعالیٰ جل مجدہ نے جبریل علیہ السّلام کے ذریعہ سلام بھیجا۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجے بلند فرمائے(آمین ثمّہ آمین)۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here