مملکتِ خداد پاکستان کافی عرصہ پہلے سے سرزمینِ بے آئین تو بن ہی چکی تھی لیکن مقبوضہ جموں و کشمیر کے حالیہ واقعات نے تو اسے پاتال کی ایسی گہری کھائیوں تک پہنچا دیا ہے کہ ہم جیسے دیس سے دور رہنے والے پاکستانیوں کے دل بیٹھے جا رہے ہیں۔ انتہائی خطرناک صورتحال یہ ہے کہ سیاست کی ستم ظریفیوں نے قوم کو مقتدرہ کے مقابل لا کھڑا کیا ہے۔ مقتدرہ کے کار پرداز، ایک ایسی گلی میں بند ہو چکے ہیں کہ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کے مصداق، کسی باعزت حل تک پہنچنا بالکل ناممکن لگ رہا ہے۔ بھارت، امریکہ، عرب یا چین کے پائوں پکڑنا اور اپنی غیرت کا جنازہ نکالنا ہی، پچیس کروڑ افراد کے اس ملک کی قسمت میں صاف صاف لکھا ہوا نظر آ رہا ہے۔ سب کسی معجزے کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ دیکھئے، اللہ تعالیٰ ہم پر کب مہربان ہوتے ہیں ورنہ اظہر ادیب تو کہہ چکے ہیں !
ہم ان کی آس پہ عمریں گزار دیتے ہیں
وہ معجزے جو کبھی رونما نہیں ہوتے
دو تین سال قبل، مقتدرہ نے بیرونی دبا ئوکی وجہ سے پاکستان کی سیاست کے ساتھ جب ہولی کھیلی تو زیادہ تر ہموطنوں کو اس کے گہرے منفی اثرات کا ادراک نہ ہو سکا۔ معزول ہونے والا سیاسی رہنما، اتنا سخت جان نکلا کہ پاکستان کی طاقتور مقتدرہ کو بتدریج بے نقاب کرتا گیا اور وہ انتہائی بے بسی کے ساتھ سارے لبادے اتارتی رہی۔ اس طویل سیاسی جنگ کی ہر لڑائی، قوم کی بے توقیری میں اضافہ کرتی رہی۔ عافیت کوش طبقات، اپنی بے توقیری پر خاموش رہے۔ ووٹ جیسے پرامن طریقے سے اپنی رائے کا اظہار تو فیصد سے بھی زائد افراد نے، مقتدرہ کے خلاف ہی کیا لیکن ساتھ ساتھ افسر شاہی، میڈیا اور عدلیہ جیسے کلیدی ادارے، عہدوں اور مال و متاع کی لالچ میں حق و انصاف کی بات نہ کر سکے۔
بے وقعتی اور بے توقیری کا یہ سفر جاری ہی تھا کہ مقبوضہ کشمیر کے اس واقعے نے، ریاستِ پاکستان کے وجود کو ہی خطرے میں ڈال دیا۔ غیر مقبول مقتدرہ کی ملک کے اندرونی خلفشار نے تو درگت بنائی ہوئی تھی ہی، سفارتی معاملات کی بدحالی نے دوست ممالک کو بھی فوری طور پر پاکستان کی حمایت میں بیان جاری کرنے سے روک دیا۔ آج ہم پوری دنیا میں تنہا ہیں، جبکہ بھارت نے اپنے آپ کو ایسا مظلوم ثابت کر دیا ہے کہ جس کا کبھی کوئی جواز بنتا ہی نہیں تھا۔ بھارت کو دلائل کے ساتھ جواب دینے کی بجائے، سوشل میڈیا لایعنی میموں سے بھرا پڑا ہے۔ ہم تو شرمندہ ہونے کیلئے بھی تیار نہیں۔ شاید اسی لئے محسن احسان نے کہا تھا کہ!
پیش کرنے کو نہ تھا کچھ بھی تہی دستوں کے پاس
شہر بے توقیر سے زاد ندامت لے گئے
پاکستان ایسا کمزور ملک تو کبھی نہیں رہا لیکن سیاسی لیڈرشپ نے بارہا مقتدرہ کے ساتھ ایسے غیر موزوں اور مبہم تعلقات رکھے کہ ملک کے عام آدمی کو اپنے ملک کے سب سے بڑے مسئلے کا ادراک ہی نہیں ہو سکا۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں بہت سے پردے اتر گئے ہیں اور قوم کو جب بھی پرامن حالات میں ووٹ دینے کا موقع ملتا ہے تو وہ ساری رکاوٹوں کو عبور کر کے مقتدرہ کے خلاف واضح رائے دے دیتی ہے۔ یہی ایک ایسا نقطہ ہے جو اس وقت اُمید کی کرن ثابت ہو رہا ہے۔ بہرحال جنگ تو ابھی جاری ہے۔ دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ عبدالستار دانش نے بھی یہاں خوب امید دلائی ہے۔
رکاوٹ راستے کی میل کا پتھر نہیں ہوتا
نظر منزل پہ ہو تو فاصلوں کا ڈر نہیں ہوتا
پاکستانی اپنے ہمسایہ ممالک سے کبھی نہیں ڈرے لیکن اس اندرونی خلفشار نے ہمیں کافی کمزور کردیا ہے۔ میں بھی اسی طرح کی داخلی سیاست نے ملک توڑ دیا تھا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ظلم و زیادتی کرنے والے عناصر اپنی ضد چھوڑ دیں اور سیاست دانوں کو اصولوں کی سیاست کرنے کا موقع دیتے ہوئے اپنے آپ کو مزید بے توقیر نہ کریں۔ سعداللہ شاہ نے کیا خوب کہا ہے کہ
مصلحت کوشو !اٹھو، خواب لٹے جاتے ہیں
زندہ رہنے کے بھی اسباب لٹے جاتے ہیں
کیا ضروری ہے کہ تم پر بھی قیامت ٹوٹے
کیا یہ کافی نہیں احباب لٹے جاتے ہیں
٭٭٭













