”ہاکی لیجنڈ اصلاح الدین کیساتھ ایک شام”

0
150
شمیم سیّد
شمیم سیّد

پاکستان میں جب بھی اسپورٹس کی تاریخ لکھی جائیگی اس میں یہ چند نام ہیں جن کے بغیر تاریخ مکمل نہیں ہوگی۔ سکواش میں جہانگیر خان، کرکٹ میں جاوید میاں داد اور ہاکی میں اصلاح الدین ان کے بغیر اسپورٹس کی تاریخ مکمل نہیں ہوگی۔ ہیوسٹن میں فرینڈز آف کراچی ایک ایسی تنظیم ہے جس نے تمام لوگوں کو متحد کیا ہوا ہے اور جب بھی پاکستان سے کوئی سیاسی سماجی اسپورٹس کی دنیا کی کوئی شخصیت آتی ہے بلاتفریق رنگ ونسل ان کے اعزاز میں تقریب منعقد کی جاتی ہے۔ اور اس تنظیم کے روح رواں سابق وزیر وسینیٹر بابر خان غوری ہیں ،ان کے پاس کوئی عہدہ نہیں ہے اس تنظیم کے صدر عارف عظیم ہیں، پچھلے دنوں پاکستان کے لیجنڈ ہاکی کے مایہ ناز کھلاڑی اصلاح الدین اپنے بھتیجے کی شادی میں شرکت کیلئے آئے ہوئے تھے، ویسے تو وہ پہلے بھی آتے رہے ہیں لیکن اس وقت فرینڈز آف کراچی جیسی تنظیم نہیں تھی۔ اس لیے مختصراً وقت میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں شہر ہیوسٹن کی مقتدر شخصیات نے شرکت کی اور زیتون ریسٹورنٹ کا ہال لوگوں سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا ۔اصلاح الدین کی محبت میں لوگ آئے ہوئے تھے ،خواتین کی بھی بڑی تعداد وہاں موجود تھی کیوں نہ ہو کیونکہ پاکستان کا نامور ہاکی لیجنڈ وہاں موجود تھا جس نے پاکستان کی ہاکی کو جو فتوحات دلوائیں جن میں3ایشیا کپ، دو ورلڈکپ ،چیمپئن ٹرافی سو سے زیادہ گول ان کے حصے میں آئے۔ فرینڈز آف کراچی کے صدر عارف عظیم نے لوگوں کا شکریہ ادا کیا۔ جنرل سیکرٹری فیروز احمد نے اصلاح الدین کے بارے میں خیالات کا اظہار کیا۔ سابق وفاقی وزیر وسینیٹر بابر خان غوری نے اصلاح الدین کی پاکستانی ہاکی کے فروغ کی کوششیں اب تک جاری رکھنے پر انکو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ قوم کو اپنے ایسے قومی ہیروز کی ہر سطح پر پذیرائی کرنا چاہئے۔ اصلاح الدین نے اپنے بارے میں خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے کراچی میں تعلیم حاصل کی۔ بابر غوری بھائی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہوں نے نارتھ ناظم آباد بلاک ایچ میں ہاکی اکیڈمی اور اسٹروٹرف فلڈ لائٹ اسٹیڈیم کی تعمیر پر انکی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ پورٹ قاسم میں بھی ہاکی ٹیم کے قیام پر مبارکباد دی۔ ہاکی کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ جب ہم نے ہاکی کھیلتے تھے تو ہمارے سامنے صرف ایک ہی مقصد ہوتا تھا کہ گولڈ میڈل لانا ہے اور یہی جذبہ لے کر ہم میدان میں اترتے تھے اسی وجہ سے ہم نے آسٹریلیا کو آسٹریلیا میں جرمنی کو جرمنی میں ہالینڈ کو ہالینڈ میں انڈیا کو انڈیا میں ان کے گھروں میں جا کر ہرایا جسکی سب سے بڑی وجہ ہماری ٹیم کی فٹنس ہوتی تھی ۔ہماری ٹیم کی فٹنس دوسری ٹیموں سے بہتر ہوتی تھی ،اس زمانے میں دو گیم ایسے ہوتے تھے جن کے لیے لوگ راتوں کو جاگتے تھے، ایک ہاکی اور دوسرے محمد علی کی باکسنگ جس کو لوگ دیکھتے تھے۔ کرکٹ ٹیم اس وقت بڑی تھی لیکن اتنی جیتی نہیں تھی۔ ہاکی بیگ گرائونڈ میں اس لیے چلی گئی کہ اس میں پروفیشنل ازم نہیں رہا۔14سال پاکستان کے لیے کھیلا جب لوگ پوچھتے تھے کہ آپ کا کونسا میچ یاد گار ہے تو میرا ہر میچ یادگار ہے جو میں نے پاکستان کے لیے کھیلا میں نے کسٹم میں نوکری کی اور اسسٹنٹ کلکٹر ریٹائر ہوا۔ 17سال تک ورلڈ ہاکی میں کام کیا12سال سلطان اذلان شاہ میں کام کیا وہاںسب کچھ سیکھا اور ہم نے کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جس سے پاکستان کی ہاکی کو نقصان پہنچے۔ بابر غوری نے جو اکیڈمی بنائی تھی ،اس اکیڈمی کو چلا رہا ہوں، اس وقت ساڑھے3سو بچے اور بچیاں ہاکی سیکھ رہے ہیں اور ان سے ایک روپیہ بھی نہیں لیا جاتا، ہمارے ساتھ پندرہ سے بیس اولمپئن ہیں جو بچوں کو ہاکی سکھاتے ہیں اور وہ بھی بلامعاوضہ کام کرتے ہیں ،اب ہم نے ہاسٹل بھی بنا دیا ہے جو ہائی اسٹینڈرڈ کا ہے اور ہم اس کا بھی چارج نہیں کرتے۔ ہماری خواہش ہے کہ ہم پاکستان کو اچھے کھلاڑی فراہم کریں کیونکہ ہم بچوں کو ٹریننگ دیتے ہیں ،اس لیے ان کو ٹائم لگتا ہے اس موقع پر انہوں نے کچھ اشعار بھی سنائے۔
اپنے جھگڑے میں زمانے کی ضرورت کیا ہے
غیر کو دردسنانے کی ضرورت کیا ہے
زندگی یونہی بہت کم ہے محبت کے لیے
روٹھ کر وقت گنوانے کی ضرورت کیا ہے
ایک قصہ بھی سنایا تھا تھر میں جب قحط پڑا تھا اس وقت ایک ٹیم سعودی عرب بھیجی گئی تھی جس کے انچارج انور مقصود تھے دوران عمرہ انور بھائی میری طرف آرہے تھے اور میں اور تیزآگے بڑھ جاتا تھا جب وہ ختم ہوا تو انور بھائی نے پوچھا میں تمہیں کچھ بتاناچاہ رہا تھا ،میں نے کہا اب بتا دیں تو انہوں نے بتایا کہ میں اور میری بیگم عمرہ پر گئے تھے جب ساتواں چکر ہونے والا تھا تو میری حالت خراب ہوگئی اور میں زارو قطار رو رہا تھا جب حجراسود پر پہنچا تو میرے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا میں سمجھا کہ مجھے تسلی دینے کے لیے ہاتھ رکھا ہے جب میں نے پلٹ کر دیکھا تو اس نے کہا کہ آپ کے پاس عتیقہ اوڈھو کا نمبر ہوگا۔ محفل زعفران زار ہوگی ،آخر میں انہوں نے کہا پاکستان بہت خوبصورت ملک ہے اگر ہم ایک قوم ہوجائیں تو ہمارا شمار بہترین ملکوں میں ہوگا۔ ملک بنایا جاتا ہے، قومیت بنتی ہے آخر میں اصلاح الدین کو فرینڈز کی طرف سے شال پہنائی گئی۔ اصلاح الدین آف کراچی نے اپنی کتاب ڈیش بابر بھائی اور عارف عظیم کو پیش کی ، اس طرح یہ یادگار خوبصورت محفل اچھی یادیں لے کر اختتام تک پہنچی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here