محترم قارئین کرام آپکی خدمت میں سید کاظم رضا نقوی کا سلام پہنچے آپ کو بھی حیرت ہوگی کہ اتنا لمبا سلسلہ کردیا ہے جو غذا کے حوالے سے لکھتا ہے جارہا ہوں اور بس نہیں ہورہی ! تو آپ حیرت نہ کریں اور بس دلچسپی سے کالم کو پڑھتے رہا کریں میرا مقصد تو آپ کے سامنے سیاہ و سفید کو ظاہر کردینا ہے باقی آپکی مرضی کہ آپ کتنی احتیاط کرتے ہیں اور کتنا اس قسم کی غذا سے پرہیز کرسکتے ہیں کیسے کیسے لوگ اس دنیا میں بسے ہیں آج آپ کو ایک حقیقی کہانی بیان کرتا ہوں جو میری تحریر نہیں بلکہ کسی کا تجربہ ہے سید مہدی بخاری صاحب نے اس کو قلمبند کیا ہے ۔سیہون کو حیدرآباد سے ملانے والی انڈس ہائی وے پر ٹوٹل کے پٹرول پمپ کے ساتھ ایک بے نام چھپڑ ہوٹل پڑتا ہے۔ اس کا مالک ایک خستہ حال سندھی تھا جسے سندھی کے علاوہ کوئی زبان نہیں آتی بس اردو کے چند الفاظ سمجھ لیتا تھا بول نہیں سکتا تھا۔ پچھلے سال انہی دنوں دسمبر میں ڈرائیو کرتے تھکن و بھوک کے مارے برُا حال ہو چکا تھا۔ میں نے اس بے نام ہوٹل پر بریک لگا دی۔
ایک ادھیڑ عمر شخص سندھی ٹوپی پہنے آیا اور میرے سامنے “سائیں” کہہ کر معافی کے انداز میں ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا۔ میں سمجھا کہ یہ کوئی مانگنے والا آ گیا ہے۔ بٹوے سے دس بیس روپے نکال کر اسے دینے لگا تو اس نے سندھی میں بولنا شروع کر دیا۔ مجھے لگا کہ یہ مزید پیسے مانگ رہا ہے۔ میں نے دس بیس اور نکال لیئے۔ بیگم ہمراہ تھی جو سندھی کسی حد تک سمجھ لیتی ہے۔ وہ بولی ” شاہ جی ، یہ پیسے نہیں مانگ رہا۔ یہ کھانے کا آرڈر لینے آیا ہے”۔۔ میں نے اسے کہا کہ یہ ہاتھ جوڑ کر کیوں کھڑا ہو گیا ہے ؟ بولی ” یہ مہمانوں کی عزت کرنے کا ان کا انداز ہے”۔بیگم نے مترجم کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے فرمایا کہ اس کے پاس صرف سفید چنے اور پراٹھا مل سکتا ہے۔ ہم نے وہی منگوا لیا کہ دوجی کوئی آپشن ہی نہیں تھی۔ کھانا بس گزارے جیسا تھا۔ بھوک کی شدت میں وہی مزیدار لگ رہا تھا۔ کھا چکا تو بل دینے کی باری آئی۔ وہ سندھی پھر ہاتھ جوڑے بولنے لگا۔ مجھے بس ایک ہی لفظ پلے پڑ رہا تھا “سائیں”۔ بیگم نے کہا کہ یہ کہتا ہے کہ آپ سید ہو اور مہمان بھی ہو یعنی پنجاب سے آئے ہو تو پیسے میں ہرگز نہی لے سکتا۔ میں سادات کا غلام ہوں۔ ” ۔۔ میں نے اسے کہا کہ چچا تمہاری محبت کا شکریہ مگر یہ ہوٹل ہے اور ہوٹل یوں نہیں چلا کرتا۔ میں نے اپنے طور پر پیسے اسے تھمانے کی کوشش کی تو وہ میرے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر سندھی میں بولتا رہا جس کا ترجمہ بیگم نے بتایا کہ یہ کہتا ہے کہ سائیں ہم کو گنہگار نہ کرو ۔۔۔ اس نے پیسے نہیں لیئے۔ سفر شروع ہوا تو میں نے بیگم کو کہا کہ تم نے سندھ میں پرورش پائی، تم نے تو آج تک نہ یوں ہاتھ جوڑے نہ ہی کسی موقع پر پیسے چھوڑے۔ بیگم بولی ” سرتاج، میں خود سید ہوں اس لئے آپ سے پیسے لے کر گنہگار نہیں ہوتی” ۔۔۔ آج صبح 8 بجے میں پھر اسی ہوٹل پر ناشتہ کرنے رکا۔ چاچا نظر نہ آیا تو میں نے وہاں کھڑے نوجوان کو پوچھا کہ یہاں سندھی ٹوپی پہنے ایک چاچا تھا۔ پچھلے سال ملا تھا۔ وہ کہاں ہے ؟ ۔ اس نے بتایا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ ہوٹل کا مالک تھا، گرمیوں میں انتقال ہو گیا۔ یہ سن کر میں چلنے لگا تو نوجوان بولا ” ناشتہ لاوں ؟ ” ۔۔۔ دل بجھ گیا تھا تو کہہ دیا کہ نہیں ناشتے کا دل نہیں۔ اسے بٹوے سے نکال کر کچھ پیسے دینے لگا تو وہ بولا کہ یہ کس لئے؟ میں نے کہا کہ یہ تمہارے والد کا مجھ پر ادھار تھا پچھلے سال، انہوں نے مجھ سے اس لئے پیسے نہیں لئے تھے کہ میں سید ہوں۔نوجوان پیسے واپس کرتے بولا ” سائیں، جو میرے باپ نے نہیں لئے تو میں بھی نہیں لوں گا اور اب تو آپ چائے پیئے بنا نہیں جا سکتے”۔
میرے سفروں میں کئی لوگوں کے مجھ پر ایسے قرض ہیں جن کو میں کسی صورت نہیں لوٹا سکتا۔ کوئی رشتہ نہ ہوتے بھی کئی لوگ بھلائے نہیں جا سکتے۔ گاڑی چلاتے کئی چہرے دھیان میں آنے لگے جنہوں نے اپنے خلوص و محبت سے مجھے مقروض کر رکھا ہے۔ شہروں میں قدورتیں، نفرتیں اور منافقت ہوتی ہے۔ اپنے بھی اپنے نہیں ہوتے اس لئے تو سانس پھولنے لگتی ہے۔ہلکی دھوپ کھلی تھی۔ کراچی پاس آتا جا رہا تھا۔ پھر سمندر کی نمکین مہک آنے لگی۔ سلطان باہو کی کافی گاڑی میں گونجتی رہی، دل دریا سمندروں ڈونگھے کون دلاں دیاں جانے ہو۔
اس تجربہ و تحریر پر روشنی ڈالی جائیگی اور ہر حوالے سے اس کا تجزیہ کیا جائیگا کیا لوگ ہیں سندھ دھرتی پر اور سوھنے پنجاب میں جن کی مہمان داری ہمیشہ سے مشھور ہے اور ہمیشہ اول نمبر پر آتی ہے آپ کے گوش گزار ایک بات کردوں یہ سب لوگ حق حلال کی وجہ سے مہمان کی قدر کرتے ہیں جن معاشروں میں حرام داخل ہوجائے وہاں دسترخوان بڑے اور دل چھوٹے ہوجاتے ہیں ۔
اور دوسری بات کوء کتنا ہی دانا ہو عقل مند ہو حلال بھی کماتا ہو لیکن جب تک مال سے زکات و عشر ادا نہ کریگا اس کا مال پاک نہیں ہوگا اور وہ اس مال کے مواخذے سے بچ نہ سکے گا اللہ پاک سے دعا ہے سب کی زندگی اور مسائل آسان ہوں۔ آمین!
٭٭٭