قارئین وطن! سب سے پہلے تو میں افغانستان کی عوام اور طالبان کے جرنیلوں اور ایک ایک مجاہد کو اپنی زمین سے امریکن اِمپیریئل ازم اور اْس کے سب سے بڑے حواری بھارت کو جو شکست فاش دی اور کٹھ پتلی حکومت کا صفایا کرنے پر بہت بہت مبارک باد پیش کرتا ہوں ـ میں پاکستان کی عمران خان کی حکومت اور افواجِ پاکستان کی امریکن افغان جنگ کے فائینل لیپ میں جو کردار ادا کیا وہ بھی کسی ستائیش سے کم نہیں اور ہر طرح کی امریکن، بھارت، اسرائیل اور یورپی حواریوں کی دھمکیوں اور جبر کی پرواہ کئے بغیر اْن کو صاف صاف بتا دیا تھا کہ وہ کسی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا اور نہ ہی اپنی زمین کو افغانیوں کے خلاف استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ زندہ باد افغانیوں، زندہ باد افغانیوں
قارئین وطن ! آج میرا اصل موضوع برطانیہ کا ” شیان علی ” 21 سالہ وہ نوجوان ہے جس نے ”انصاف کی اْمید” کی شمع روشن کی ہے پاکستان کے کرپٹ ،خائین اور لٹیرے میاں نواز شریف اور اْس کے سارے ٹبرکیخلاف 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ جو برطانیہ کے وزیر اعظم کی رہائش گاہ ہے کے سامنے بوڑھے مرد ،بوڑھی عورتیں، جوان مرد و زن اْن کے جذبات اور جوش و خروش دیکھ کر میں رشک کر رہا تھا اور مجھ کو اپنے مرشد ثانی جناب فیض احمد فیض کی نظم ”عشق اپنے مجرموں کو پابجولاں لیچلا کی شدت سے یاد آئی!
دار کی رسیوں کے گلو بند گردن میں پہنے ہوئے
گانے والے ہر اِک روز گاتے رہے
پائیلیں بیڑیوں کی بجاتے ہوئے
ناچنے والے دْھومیں مچاتے رہے
ہم نہ اِس صف میں تھے اور نہ اْس صف میں تھے
راستے میں کھڑے اْن کو تکتے رہے
رشک کرتے رہے
اور چْپ چاپ
آنسو بہاتے رہے
لوٹ کر آکے دیکھا تو پھولوں کا رنگ
جو کبھی سرخ تھا زرد ہی زرد ہے
اپنا پہلو ٹٹولا تو ایسا لگا
دل جہاں تھا وہاں درد ہی درد ہے
گلو میں کبھی طوق کا واہمہ
کبھی پاؤں میں رقصِ زنجیر
اور پھر ایک دن عشق اْنہیں کی طرح
رسن در گلو پابجولاں ہمیں
اْسی قافلے میں کشاں لے چلا
اْسی قافلے میں کشاں لے چلا
میں اْس شیان علی کے قافلے کا حصہ بن گیا ـ بہت سال گزرتے ہیں میں کوئی دس بارہ سال کا ہوں گا اپنے والد مرحوم سردار محمد ظفراللہ ایڈوکیٹ کے ساتھ ان کے دفتر ٩ ٹرنر روڈ سے واک کرتے ہوئے اپنے گھر کوئیز روڈ کی طرف جا رہے تھے فضل دین اینڈ سنز کے سامنے دو باڈی بلڈر ٹائپ نیگرو قریب سے گزرے۔ میرے والد صاحب نے بڑے تپاک سے اْن سے ہاتھ ملایا اور کوئی سوال کیا ۔ہم پھراپنے اپنے راستے پر ہو لئے تو میں نے ڈیڈی سے پوچھا کہ آپ جانتے ہیں یہ کون ہیں ؟انہوں نے کہا یہ کسی سیاہ فام ملک جس کا نام مجھ کو یاد نہیں فریڈم فائیٹر ہیں اور ہر فریڈم فائیٹر میرا دوست ہے اور اْن کے نقشہ قدم پر چلتے ہوئے ہر وہ شخص میرا ساتھی ہے میرا دوست ہے میرا ہیرو ہے جیسے شیان علی جس نے تنہا برطانیہ کی سر زمین پر پاکستان کے لوٹنے والوں کو للکارا ہے ۔
قارئین وطن ! میں اْس کی للکار کو دیکھ رہا تھا اور یہ سوچ رہا تھا کہ ہزاروں لاکھوں میں اللہ پاک نے اِس بچے کو ہمت عطا کی اور اِس کی جرأت نے ہم سب کو لڑنے اور اِن چوروں کا مقابلہ کرنے کی راہ دکھلائی ہے !
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دارو رسن کہاں
ابھی امریکہ نے اپنے بھاگے ہوئے ایک مجرم جس نے امریکی عوام کو 30 ملین ڈالر کا چونا لگایا پرویز عرف پیٹر کو پاکستان سے پکڑا اور extradite کروایا ہے اور عمران خان کی کابینہ نے اْس کو امریکہ کے حوالے کیا ہے۔ اَب حکومت پاکستان کو اِس کی مثال بناتے ہوئے نواز شریف، اسحاق ڈار اور اْس کے تمام ساتھیوں کو برطانیہ سے پکڑ کر واپس لانا چاہئے اور عوام کی لوٹی ہوئی دولت کی ایک ایک پائی وصول کرنی چاہیے ، اگر ایک بچہ اْن بدمعاشوں کے سامنے کھڑا ہو سکتا ہے تو ریاست کو اپنی رِٹ کا مظاہرہ کرنا چاہئے بلکہ اس بچے کی تقلید کرتے ہوئے ہر پاکستانی کو اْس سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنا قدم بڑھانا چاہئے ۔ میری نظر میں 14اگست کو اگر کسی نے پاکستان کا جھنڈا لہرایا ہے اور قائد اعظم کو خراج عقیدت پیش کیا ہے تو وہ صرف اور صرف شیان علی ہے ۔ زندہ باد ، زندہ باد شیان زندہ باد