پاکستان تحریک انصاف کے ستر سے زائد اہم رہنمائوں نے اپنی راہیں جدا کرلیں،پوری حکومتی مشینری اس کوشش میں لگی ہے کہ کسی طرح پاکستان تحریک انصاف کی لیڈرشپ کو اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ عمران خان اور اس کی پارٹی سے اعلانِ لاتعلقی کریں اور اگر کوئی سیاسی ورکر اس بیوفائی کے لیے تیار نہیں ہوتا تو اسے جس قید بامشقت سے گزرنا پڑتا ہے وہ ایک الگ کہانی ہے۔ کچھ نے عمران خان سے اعلانِ لا تعلقی کے ساتھ نم آنکھوں سے سیاست کو بھی خیر باد کہہ دیا۔کسی نے خرابی صحت کی کہانی سنائی تو کسی نے اپنی گھریلو ذمہ داریوں کا رونا رویاکچھ سیاسی خانہ بدوشوں نے ڈھکے چھپے لفظوں میں عمران خان کو سارے مسائل کی جڑ قرار دیا اورتحریک انصاف سے کنارہ کر لیا۔اسد عمرعلی زیدی، شیریں مزاری اور عمران اسماعیل کی بیوفائی عمران خان کو افسردہ کر گئی اور یہ افسردگی اس وجہ سے بھی ہے کہ تحریک انصاف کو کرش کرنے کے لیے جیسے منصوبہ بندی کی گئی اورعمران خان کو منظر سے ہٹانے کے لیے جیسے غدار اور دہشت گرد کا فتوی لگایا گیاوہ تکلیف دہ بھی ہے اور قابلِ توجہ بھی۔ذرائع کے مطابق جیل میں گرفتاری کے بعد تحریک انصاف کے قائدین کو جس ٹارچر سے گزارا جا رہا ہے جیسے ہراساں کیا جا رہا ہے وہ پارٹی تو کیا ملک بھی چھوڑنے کو تیار ہو جائیں۔راولپنڈی میںوال آف شیم بھی بنا دی گئیجس پر تحریک انصاف کے قائدین کی تصاویر لگا دی گئیں تاکہ قوم کو بتایا جا سکے کہ موجودہ تباہی کے ذمہ دار صرف اور صرف یہ لوگ ہیں۔ آپ تحریک انصاف سے لاکھ اختلاف کریںآپ نو مئی کے تکلیف دہ حادثے کے بعد بے شک تحریک انصاف اور اس میں ملوث سیاسی خانہ بدوشوں کو سزا دیں مگر کسی بھی سیاسی پارٹی پر پابندی لگانا یا اس کو کرش کرنے کے لیے پوری حکومتی مشینری لگا دیناکہاں کا انصاف ہے؟سیاسی پارٹیاں پابندیوں سے ختم نہیں ہوتیں اور نہ ہی کبھی سیاست دانوں کو بلیک میلنگ کے ذریعے راستے سے ہٹایا جا سکتا ہے کیوں کہ اہمیت اور طاقت سیاست دان کی نہیں ووٹر کی ہوتی ہے ۔اس وقت تک ستر سے زائد لوگ تحریک انصاف سے علیحدگی کا اعلان کر چکییہ دو سو ستر بھی ہو جائیں تو کیا ایسی سیاسی پارٹی کو ختم کیا جا سکتا ہے جس کے ووٹرز دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔ تحریک انصاف اور عمران خان سے درجنوں اختلافات ہو سکتے ہیں۔ ہر ذی شعور پاکستانی فوج عدلیہ اور پارلیمان کی مضبوطی پر یقین رکھتا ہے۔ اس بات کا اعتراف بھی کرتا ہے کہ کسی بھی ملک کی کامیابی اور ترقی اسی میں ہے کہ اس کے ادارے مضبوط ہوںسیاست دانوں کو یہ بات بالکل بھی زیب نہیں دیتی کہ وہ اداروں سے محاذ آرائی کریں یا اپنے ورکرزکے ذریعے اداروں کو بلیک میل کریں عمران خان گرفتار ہوئے تھیخاموشی سے جیل چلے جاتیاپنا مقدمہ عدالت میں رکھ دیتیقانونی چارہ جوئی کے بعد باہر آتے تو پہلے سے زیادہ پاپولر ہو کر نکلتے مگر افسوس ایسا نہیں ہوا۔ یہاں اسی واقعے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہینو مئی کے حادثے کے بعد حکومت نے سارا ملبہ عمران خان اور تحریک انصاف کے ورکرز پر ڈال دیا جبکہ عمران خان مسلسل کہہ رہے ہیں کہ اس معاملے کی عدالتی کمیشن تحقیق کرینو مئی کو جو کچھ ہوا یہ مجھے اور میری پارٹی کو دیوار سے لگانے کی منصوبہ بندی ہے اور اس کے پیچھے کون لوگ ملوث ہیںاس کی تحقیق کریں۔عمران خان بلاناغہ اپنی تقریروں میں اس واقعے کی شدید مذمت کر رہے ہیں بلکہ بار بار پاکستانی اداروں سے دست بستہ اپیل بھی کر رہے ہیں(جسے مریم اورنگ زیب این آر او کہہ رہی ہیں) کہ اس حادثے کی تحقیق کریں مگر میری پارٹی کے ساتھ ظلم نہ کریں۔ ایک سیاسی پارٹی پر پابندی لگانے کے لیے اسے غدار ڈکلیئرکر دینا اور پھر اس کے مرکزی قائدین اور سپورٹرز کو نہ صرف قید ِبامشقت میں ڈالنا بلکہ ان کو ہراساں کرنا اور مجبور کرنا کہ وہ پارٹی سے اعلانِ لاتعلقی کریںظلم ہے۔کل جب پاکستان تحریک انصاف مسلم لیگ نون کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی تھی اس وقت بھی یہ غلط تھا کہ سیاسی بنیادوں پر بنائے جانے والے کیسز کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور ایسے میں حکومتیں اپناہی امیج خراب کرتی ہیں۔ایک سیاسی پارٹی کو بہرحال سیاست میں رہنا چاہیے۔ کیسز بنائیںسیاست دانوں کو سزائیں بھی دیں مگر سیاست پھر بھی سیاست دان ہی کریں تو جمہوریت زندہ رہیگی اور اگر سیاست دان محض اس لیے حکومت میں آئیں کہ مخالف پارٹی یا آدمی کو اپنی طاقت دکھانی ہے تو یہ رویہ کسی طور بھی مثبت نہیں۔ہر محب وطن کی پی ڈی ایم اور وزیر اعظم شہباز شریف سے ایک ہی گزارش ہے کہ خدارا!بس کریںبہت ہو گیا ۔آپ چاہے الیکشن اکتوبر میں کروائیں یا نومبر میں مگر ایک دفعہ ملک کی خاطر مذاکرات کی میز پر بیٹھ جائیں اور کسی ایک تاریخ پر متفق ہو جائیں۔آپ نو مئی کے شرم ناک حادثے میں ملوث مجرموں کو قانون کے مطابق سزا دیں مگر ملک کو موجودہ انتشار سے باہر نکالیں تاکہ غریب دووقت کی روٹی کھا سکے۔ گزشتہ روز مریم نواز نے جیسے ورکرز کنونشن میں عمران خان پر غداری کا فتوی لگایاانتہائی افسوس ناک ہے۔کیا کسی بھی سیاست دان کو یہ رویہ زیب دیتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو غدار اور دہشت گرد کہے؟جیسے کسی زمانے میں نواز شریف ،بے نظیر بھٹو کو غدار کہتے تھے ،زرداری، نواز شریف کو غدار کہتے تھے، خواجہ آصف ،مریم اورنگ زیب اور رانا ثنا اللہ نے جیسے غداری کے فتوے بانٹے ،کیا سیاست دانوں کو یہ سب کرنا چاہیے؟غداری کی تعریف ہمارے قانون میں کیا ہے ہمیں اسے پڑھنے کی ضرورت ہے ۔پاکستان اس وقت انتہائی نازک صورت حال سے دوچار ہیتکلیف دہ وقت میں جو بھی آگے بڑھ کر سیاسی و آئینی بحران سے نکلنے کا راستہ دکھائے گاوہ ہیملک و قوم کا ہیرو ہو گا۔ خدارا!ملک کی خاطر اپنی انائوں اور ضد کو پس پشت ڈال دیں اور مل بیٹھیں اور موجودہ تباہی کا حل نکالیں۔
٭٭٭