مذمت کرنے کی جو ایک رسم چلی ہے یہ بھی پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ دیکھنے میں آئی ہے، ہر کوئی دوسرے شخص سے یہ کہہ رہا ہے کہ میں نے تو مذمت کردی ہے آپ نے اب تک کی یا نہیں؟ میں اِسی نئی چمچہ گیری کی روایت کی جانچ پڑتال کرنا چاہتا ہوں کہ کون واقعی میں اپنے دِل کی گہرائی سے مذمت کر رہا ہے ، اور کون صرف اپنی ملازمت بچانے کیلئے؟
میرے ایک دوست نے مجھے فون کر کے بتایا کہ جب وہ مرکزی حکومت کی آئی ٹی وزارت میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی پوسٹ کیلئے انٹرویوں دینے گئے تو سلام و دُعا کرنے سے قبل ہی اُنہوں نے یہ کہہ دیا کہ وہ 9 مئی کے افسوسناک واقعہ کی مذمت کرتے ہیں، وزیرآئی ٹی اتنا زیادہ خوش ہوئے کہ فورا” اپنے سیکرٹری کو بُلا کر یہ حکم دیا کہ اِنہیں جاب لیٹر دے دو،میں اپنے دوست کو اچھی طرح جانتا ہوں جو اِس سے قبل پرچون کی ایک دکان میں سیکیورٹی گارڈ کی ملازمت کیا کرتے تھے۔
ڈرگ کالونی کے ایک بزرگ سے ہماری پرانی شناسائی ہے، جب میں نے فون کے ذریعہ اُن سے استفسار کیا کہ کیا آپ بھی کسی کی مذمت کرتے ہیں؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ ہاں میں بھی ضرور کرتا ہوں سندھ کے محکمہ لینڈ ریونیو کے مختار کی جو مجھ سے میری زمین کی رجسٹریشن کرانے کیلئے پانچ لاکھ روپے کی رشوت مانگ رہا ہے،گزشتہ 20 سال میں کئی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں لیکن صوبہ سندھ کے اداروں میں رشوت کا بازار ہمیشہ گرم رہا، پانچ لاکھ روپے کی رشوت 10 سال قبل صرف ایک لاکھ روپے تھی، مختار کا کہنا ہے کہ انفلیشن کے ساتھ ساتھ رشوت کی رقم میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے، اُنہوں نے مزید کہا کہ وہ مذمت کرتے ہیں سندھ ہائی کورٹ کا جہا ں اُن کے مکان کا کیس گذشتہ 40 سال سے چل رہا ہے، اِس دوران 18 ججز آئے جن میں 11ججوں کا انتقال ہوچکا ہے ، پانچ استعفیٰ دے کر غیر ملک میں آباد ہوگئے ہیں اور دو حاضر ملازمت ہیںلیکن مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ سارے ملک میں استعفیٰ دینے کی ایک نئی لہر دوڑ گئی ہے، ہر ایرے غیرے تحریک انصاف سے استعفیٰ دے رہا ہے، حتی کہ وہ بھی استعفیٰ دے رہا ہے جو کبھی تحریک انصاف کا بنیادی رکن بھی نہ تھا۔بھنگی اور قصائی بھی پارٹی سے استعفیٰ دے رہے ہیں، چلئے بھائی ! اِس سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ تحریک انصاف ایک عوامی پارٹی ہے، میں تو پہلے یہ سوچتا تھا کہ تحریک انصاف پروفیشنل گوروں کی جماعت ہے اور مسلم لیگ (ن) میں کالے اﷲکے پیارے رانا ثنا جیسے لوگ شامل ہیں، معلوم ہوا ہے کہ رانا ثنا گذشتہ چھ ماہ سے جِلد کو سفید کرنے والی سینکڑوں کریم کا استعمال کیا ہے ، لیکن اُنکا رنگ اتنا شوخ و سیاہ ہے کہ بدلنے کا نام ہی نہیںلیتااگرچہ مولانا فضل الرحمن کی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک عامل نے اُن کے جِلد کی تشخیص کی تھی اور اُنہیں مشورہ دیا تھاکہ وہ پھونک مارکر اُن کے جِلد کو سفید کر دینگے جسکا رانا ثنا کو بہت شوق ہے۔صحافتی اصولوں کی دھجیاں اُڑانے والے اخبارات کی خبریں بھی اِن دنوں عجب ہورہی ہیں اگر کسی نوعمر لڑکے نے کسی گاڑی کے شیشے کو پتھر مار کر توڑ دیا تو یہ اُن کیلئے قیامت خیز کا شاخسانہ ہوتا ہے ۔ اُن
کا اخبار اور اُن کے اخبار کو لفافہ دینے والے مردہ ضمیر رہنما اِسے آسمان پر اٹھالیتے ہیں، ہر ایک سے یہ استفسار کرنے لگتے ہیں کہ کیا آپ نے اِس لڑکے کی حرکت کی مذمت کی ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو آپ نے امرتسر کی ثقافت اور تہذیب کو پامال کردیا ہے، مذمت نہ کرنے کے الزام میں آپ کو اڈیالہ جیل کی ہوا کھانی پڑے گی، مردم شماری میں آپ کا شمار ملک دشمنوں میں ہونے لگے گا بلکہ آپ کی آنے والی نسل کو بھی اِس بات کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا کہ اُن کے ڈیڈی نے اُس لڑکے کی مذمت نہیں کی تھی جو ایک
دِن سے بھوکا تھا، اُسی بھوک و پیاس کے عالم میں وہ لاہور سے سیالکوٹ پیدل سفر کر رہا تھا۔ راستے میں ایک گاڑی دھول اُڑاتے ہوئے اُس کے قریب سے گزر گئی تھی، ازراہ تحفظ اُس نے ایک پتھر کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھاتاکہ اگر دوسری گاڑی کو چلانے والے نے ایسی حرکت کی تو وہ پتھر مارکر اُس گاڑی کے شیشے کو ڈھوں شوں کر دے گا، بدقسمتی سے دوسری گاڑی کے ڈرائیور نے اُسے جھٹکے مارنے کی کوشش کی تھی، جس نے لڑکے کے صبر کے پیمانے کو لبریز کردیا اور اُس نے پتھر سے گاڑی کے شیشے کو تہس نہس کر دیا، پولیس والے ہر گاڑی کو روک کر یہ پوچھنے لگے کہ کیا وہ اُس لڑکے کی مذمت کرتے ہیں ، اگر نہیں تو پھر اُن کی گاڑی کا چالان ہوگایا نہیں تو دوسرا آپشن یہ ہے کہ وہ ایک ہزار روپے کا نذرانہ پیش کر دیں لیکن غور طلب امر یہ ہے کہ اُسی 9 مئی کے دِن جب خونخوار عفریت نے شب خون مارا تھااور جس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد موت کی نیند سوگئے تھے، اُس کی مذمت کس نے کی تھی، اُن کی بے گور و کفن لاشیں جو سڑک کے کنارے پڑیں ہوئی تھی اُن کی کون سی تصویر یںخبارات کی زینتیں بنی تھیں؟
کس نے اُن سادہ لوح اور غریب انسانوں کی اموات پر مذمت کا اظہار کیا تھا؟ایک سو سے زائد افراد جو پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنے تھے وہ بھی پاکستان کے شہری تھے اور اقتدار کے سنگھا سن پر بیٹھے
وزرا اور وزیراعظم کا یہ فرض تھا کہ وہ بھی شہید ہونے والوں کے لواحقین سے اظہار تعزیت کریں ، اُنہیں
غیرجانبدرانہ تحقیقات کی یقین دہانی کرائیں بہرکیف کُرگس کا منحوس سایہ جو ہمارے ارض وطن پر منڈلارہا ہے ،دوبارہ اپنے نشیمن میں پناہ گزیں ہوجائیگا، اُسے اپنی اوقات بھی معلوم ہوجائیگی۔