شکست و ریخت کے مناظر

0
106
کوثر جاوید
کوثر جاوید

گزشتہ5 ہفتوں کے دوران امریکی کمانڈ انچیف صدر بائیڈن کو جس طرح کی کھری کھری سننا پڑ رہی ہیں اور جس حد تک ان کو سیاسی اور سماجی حلقوں کی طرف سے تنقید کانشانہ بنایا جا رہا ہے اس کی مثال امریکہ کی جدید تاریخ میں نہیں ملتی’ یہ دن بھی دیکھنا تھے کہ اپنے شہریوں کو افغانستان میں امریکی سفارت خانے کی چھت سے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے نکالتے دیکھنا تھا۔ افغانستان میں جس طرح طالبان نے انتہائی سرعت سے کابل پر قبضہ کیا اس سے امریکی خبط عظمت کا بخار اتر گیا ہے۔اتوار کے روز جس طرح امریکہ نے کابل میں اپنے سفارتخانے سے سفارتی اہلکاروں اور شہریوں کو نکالا ہے اس صورتحال سے بچنے کیلئے اوول آفس میں ایک اہم میٹنگ بھی ہوئی تھی۔ دنیا بھر کے لوگوں نے یہ منظر دیکھا کہ کس طرح جان بچانے کیلئے امریکی شہری نہ صرف ہیلی پیڈ پر مدد کے منتظر تھے بلکہ سفارت خانے کی دوسری عمارتوں کی چھتوں پر بھی موجود تھے۔اب جبکہ افغان حکومت حیران کن حد تک ریت کی دیوار ثابت ہو چکی ہے اور طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا ہے گو 11ستمبر کے روز جب امریکہ میں 9/11کی تقریبات ہو رہی ہوں گی افغانستان میں 20برس پہلے کی طرح طالبان حکمران ہوں گے۔ بائیڈن چاہے اس بات کے مستحق ہوں یا نہ ہوں مگر امریکہ کے افغانستان میں ذلت آمیز انجام کا ان کے دور صدارت میں رونما ہونا تاریخ میں لکھا جائے گا۔بائیڈن نے اپنے اقتدار کے ان سات ماہ میں جس طرح ہمت سے کورونا وبا کے خلاف جنگ لڑی اور 70فیصد امریکیوں کو ویکسین لگانے کا ہدف حاصل کیا ،امریکیوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کئے اور نسلی امتیاز کے خلاف بل پاس کروایا، بائیڈن کی ان تمام کامیابیوں پر گزشتہ روز افغانستان سے ا نیوالی تصاویر نے پانی پھیر دیا ہے۔ یہاں تک کہ بائیڈن کے وہ حمایتی جو سمجھتے ہیں کہ افغانستان کی لاحاصل جنگ سے نکلنے کا بائیڈن کا فیصلہ درست اور افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی کو جو امریکی فوج اور امریکی مفادات کے خلاف سمجھتے ہیں ان کا بھی یہ ماننا ہے کہ امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے دوران امریکہ سے غلطیاں ہوئی ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ انخلا کیلئے مرتکب کی گئی حکمت عملی کی خامیاں مستقبل میں امریکی سیاست کیلئے کس حد تک نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ چاہے فیصلے ٹرمپ دور حکومت میں ہوئے یا پھر صدر بائیڈن کے دور میں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ افغانستان سے امریکیوں نے نکلنا ہی تھا مگر امریکہ باوقار طریقے سے بھی نکل سکتا تھا اگر قیادت نے بروقت درست فیصلے کئے ہوتے۔ ایسا بھی نہیں کہ صدر بائیڈن کو صورتحال کی سنگینی کا ادراک نہیں تھا، وہ متعدد مرتبہ یہ بات دہرا چکے ہیں کہ وہ جدید امریکی تاریخ میں سابق صدر ا?ئزن ہاور کے بعد خارجہ امور میں سب سے زیادہ تجربہ رکھنے والے امریکی صدر ہیں۔ وائٹ ہائوس میں ہونے والی متعدد میٹنگز میں وہ اپنے حمایتیوں کو یہ باور کروا چکے تھے کہ افغانستان سے فوجی انخلا نہایت پیچیدہ عمل ہے اور امریکہ کو ویت نام جیسی صورتحال سے بچنا ہے۔ ہیلی کاپٹر سے لٹکے امریکی فوجیوں کی تصاویر آج میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ 1975ء میں سیگون میں امریکی سفارتخانے کی چھت پر ہیلی کاپٹر کے لئے لگائی گئی سیڑھیوں پر امریکی فوجی لٹکے ہوئے تھے جب وہاں ویتنام کی گوریلا فوج نے شہر پر قبضہ کیا تھا۔ اپریل میں ہی انخلا کی تاریخ کا اعلان ہوا تھا اور 9/11کی سالگرہ تک افغانستان سے انخلا مکمل ہونا تھا، بائیڈن اور ان کے ساتھی ابھی افغانستان میں امریکیوں کیلئے ترجمانی کرنے والوں اور حمائتیوں کو امریکہ منتقل کرنے کیلئے کاغذات کی تیاریوں میں مصروف تھے اور ایمگریشن پرکام ہو رہا تھا۔امریکہ ابھی تک امریکی کنٹریکٹرز کی واپسی کا قابل بھروسہ میکنزم بھی نہ بنا پایا تھا۔بائیڈن نے جون کے آخر میں افغان فورسز کی واپسی کے انتظامات مکمل کرنے کی بات کی تھی، امریکہ سوچتا ہی رہ گیااور افغان حکومت طالبان کے سامنے ڈھیر ہو گئی۔ بائیڈن کے اپنے الفاظ ہیں کہ ان کے پاس معقول وقت ہے جو 8ماہ پر محیط بتایا گیا تھا پھر سقوط کابل سے چند روز پہلے تک امریکی خفیہ ادارے طالبان کے کابل تک پہنچنے میں 8ماہ کا وقت بتا رہے تھے۔ اتوار کے روز امریکی اندازے غلط ثابت ہوئے۔ افغان فوج نے امریکی خفیہ اداروں کی رپورٹ کے برعکس لمحوں میں ہتھیار ڈال دیے۔یہاں تک کہ افغان فوج نے ایک گولی بھی نہیں چلائی اور کابل طالبان کے حوالے کر دیا۔ یہ سب اس فوج نے کیا جس کے بارے میں بائیڈن پراعتماد تھے کہ امریکہ نے اس فوج کو تربیت ہی نہیں بلکہ جدید ہتھیاروں سے لیس بھی کیا ہے۔گزشتہ اتوار کو ہی شاید بائیڈن پر یہ انکشاف ہوا ہو کہ جس فوج کے بھروسے یہ انخلا کی حکمت عملی بنا رہے تھے اس میں تو اتنی صلاحیت ہی نہ تھی۔ سقوط کابل میں دنیا بھر کی حکومتوں خاص طور پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیلئے سیکھنے کے لئے بہت بڑا سبق ہے۔ان کو افغان جنگ کے آغاز اور انجام پر غور کرنا چاہیے۔ میخائل فلورونوف نے کہا ہے کہ امریکہ کو سقوط کابل کے اسباب پر غور کرنا چاہیے کہ وہ کیا غلطیاں تھیں جن سے افغانستان میں امریکیوں کی زندگیاں خطرے میں پڑیں۔ ان کے مطابق شاید ہم نے افغانستان کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔ جنوبی ایشیا کے سیاسی معاملات کے ماہر اور اوبامہ دور میں افغانستان میں سفارتکار کے فرائض انجام دینے والے ریان سی کروکر جو بش کے دور اقتدار میں عراق میں بھی فرائض انجام دے چکے ہیں انہوں نے سات روز پہلے ٹیلی ویڑن پر ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ افغانستان میں خانہ جنگی کا خدشہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ افغانستان میں جو بھی صورتحال ہو گی اس کی ذمہ داری ٹرمپ کو لینی چاہیے کیونکہ ٹرمپ نے ہی افغانستان سے نکلنے کا طالبان سے معاہدہ کیا تھا۔ ان کے خیال میں یہ معاہدہ ٹرمپ کے سیاسی کردار پر بدنما داغ ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here