اچھا ہوا کہ وزیراعظم محمد شہباز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سیشن میں اپنے کوٹ کی جیب پر اپنے نام کا ٹیگ لگائے ہوے تھے ، ورنہ کوئی بعید نہ تھا کہ سیکورٹی کا اہلکار اُن کے گریباں کو پکڑ کر ہال سے باہر نکال دیتا بلکہ یہ بھی کہہ دیتا کہ بِن بلائے مہمانوں کی یہاں کوئی گنجائش نہیں، نام کے ٹیگ کے بجائے اگر وہ پگڑ اور دھوتی پہن کر بھی اسمبلی میں شرکت کر لیتے تو دوسرے سر براہ مملکت کو اُنہیں پہنچاننے میں دقت نہ ہوتی، ہر سربراہ یہی کہتا کہ یہ ہے جٹ پاکستان کا. حقیقت یہ ہے کہ محمدشہباز شریف پاکستان کے ایک گمنام وزیراعظم ہیںجنہیں دنیا کے دوسرے ناظرین اُس وقت دیکھتے ہیں جب بین الاقوامی خبروں میں یہ دکھایا جاتا ہے کہ پاکستان کی پولیس نہتے اور سادہ لوح پاکستانیوں پر ڈنڈا بر سارہی ہوتی ہے، اور اُسی کے ساتھ وزیراعظم شہباز شریف کی چند سیکنڈ کیلئے ایک جھلک بھی دکھادی جاتی ہے، اب آپ یہ کہیںگے کہ وزیراعظم شہباز شریف جنرل اسمبلی میں ایک بہت اچھی تقریر کی تھی، اُن کی انگریزی میں روانی تھی، تقریر کا مواد آئیں بائیں شائیں سے بھرا ہوا تھا ۔انگریزی میں روانی اِس وجہ کر تھی کہ اُنہوں نے ایک گورے چیف کو گھر کے باورچی خانے کے دیکھ بھال کیلئے رکھ لیا تھا ، اور وہ اُسی سے اِس طرح کی انگریزی میں گفتگو کرتے تھے مثلا”لنچ میں چکن کا لیگ بھنا ہوا آئی وانٹیڈ چیف جواب دیتا تھا اوہ مائی گوڈ، یو آلویز وانٹ چکن کا لیگ تم آدمی ہے یا کروکو ڈائیل ، وزیراعظم جواب دیتے تھے میں پرائم منسٹر ہے، ورک بہت کرتا ہے اِدھر پروٹسٹ ، اُدھر دھرنا ، کیا کہتا ہے دھرنا کو انگریزی میں سر دھرنا کو اوکوپائی کہتا ہے، ویری گُڈ ، مائی انگریزی بھی اچھا ہے، میں آکسفورڈ میں جانا چاہتا تھا، لیکن میرے باپ نے اسلامیہ کالج میں ایڈمیشن کرادیا، میں تمہیں اور بھی بھنگ لا دے گا تاکہ تم ہیپی رہو،وزیراعظم شہباز شریف کی تقریر کی ابتدا اِس دعوے سے شروع ہوئی کہ و ہ جنرل اسمبلی میں دوسری مرتبہ خطاب کر رہے ہیں لیکن آخر کیوں؟ سچائی کی رو سے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کو اُس مقام پر کھڑا ہونا چاہئے تھا، لوگوں کو سبق لینا چاہیے بنگلہ دیش کی شیخ حسینہ سے جس کی شکل کو دیکھ کر لوگوں کو متلی آنے لگتی تھی، پاکستان بھی مورثی سیاست کا آماجگاہ بن گیا ہے ، اِس لئے وہاں بھی وہ دِن دور نہیں جب انقلاب کی ایک لہر اقتدار پر متمکن سازش پسندوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائیگی۔مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان دونوں کے سربراہوں نے اپنی تقریروں میں یکساں ذہنیت کی عکاسی کی تھی، وزیراعظم نریندر مودی بھی اپنی تقریر میں یہ کہنے سے باز نہ رہ سکے کہ دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک بھارت کے عوام نے اُنہیں تیسری مرتبہ اقتدار کی باگ ڈور سپرد کی ہے لیکن وزیراعظم شہباز شریف کی تقریر میں انگریزی شاعری جس میں وہ کہتے ہیں کہ ڈیبٹس آر لو اینڈ دی کریڈٹس آر ہائی ۔ وین یو ٹرائی ٹو اسمائیل بٹ یو شائی، ساری دنیا میں شہرت حاصل کر لی ہے، تمام ممالک کے سربراہ نے اُس سے یہی معنی اخذ کیا ہے کہ پاکستان کی معاشی حالت اتنی زیادہ مخدوش ہوگئی ہے کہ ملک کا سربراہ بھی بین الاقوامی فورم پر کھڑے ہو کر بھیک مانگ رہا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا امریکا میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کا شیڈول بھی پڑھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے یہ کسی وزیراعظم کی مصروفیات نہیں بلکہ چار درویشوں کی داستان محبت ہو،دنیا کے سارے سربراہان مملکت جنرل اسمبلی کے سیشن کو ایک سنہری موقع قرار دیتے ہیں دوسرے ملکوں کے سربراہوں سے ملنے کا جیسے بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے گھنٹوں تک امریکی صدر جو بائیڈن سے گفت و شنید کی اور بھارت میں امریکا کی شراکت سے سیمی کنڈکٹر کی انڈسٹری لگانے کا فیصلہ کیا اُنہی کے ساتھ وہ جاپان ، آسٹریلیاکے سربراہ مملکت کے ساتھ ایک بین الاقوامی اجلاس میں شرکت کی لیکن اپنے وزیراعظم تو بس ادھر اُدھر مارے مارے پھرتے رہے البتہ پاکستانی اخبارات نے اُنکی ایک تصویر جو بائیڈن کے ساتھ اِس عنوان کے ساتھ شائع کردی کہ وہ اُن سے ملاقات کر رہے ہیں، حقیقت میں وہ کوئی ملاقات نہ تھی بلکہ امریکی صدر کی جانب سے تمام شرکا جنرل اسمبلی کے اعزاز میں ایک عشائیہ تھا جس میں ہمارے وزیراعظم صاحب نے درخواست کرکے جو بائیڈن کے ساتھ اپنی تصویر کھینچوائی تھی۔بہر کیف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نشستند، گفتنداور برخواستند ہوگئی لیکن فلسطینیوں کی جہنم واصل زندگی میںامن کا کوئی پیام نہ آسکا.ایک جانب جنرل اسمبلی کے ڈائس پر بین الاقوامی رہنماؤں کی گرمجوش تقریریں جاری تھیں اور دوسری جانب اسرائیل کا میزائل لبنان اور غزہ کی بلند بام عمارتوں کے پُرخچے اُڑا رہا تھا، جس سے ماں اپنے بچوں کی تڑپتی ہوئی لاشوں کی دیدہ وری کر رہی تھیں، ایک ساعت میں خاندان کا خاندان اِس دنیا سے رخصت ہورہا تھا، اور انسانوں کا خون خشک سیمنٹ کے تودوں میں جذب ہوکر نشان عبرت بن رہا تھا۔اِس تناظر میں پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کی اقوام متحدہ میں تقریر قابل ستائش تھی جنہوں نے مندوب کے ضمیر وں کو جگانے کی حتی المکان کوشش کی تھی ، اُن کی تقریر پاکستانیوں کے دِل کی دھڑکنوں سے ہم آہنگ تھیں اور اُنہوں نے اپنے فرائض کو صحیح طور پر انجام دیا تھاجس کیلئے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔
٭٭٭