شدید بحرانی کیفیت اور عوام !!!

0
18

رواں جمہوری نظام ہی مختلف سیاسی جماعتوں کے منشور سامنے لاتے ہیں اور افراد سے زیادہ نظام کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ کسے معلوم نہیں کہ اپنا ملک ایک شدید بحرانی کیفیت سے گزر رہا ہے۔ معاشی مشکلات نے عوام کی زندگیاں اجیرن کی ہوئی ہیں ۔ کوئی بہتری کی صورت نظر نہیں آ رہی ۔ جو لوگ ان مشکل حالات والے ملک سے بھاگ سکتے ہیں وہ بھاگے جا رہے ہیں لیکن عجیب صورت حال یہ ہے کہ کچھ لوگ اب بھی اس ملک میں موج میلے کی زندگیاں گزارے جا رہے ہیں۔ یہ لوگ تمام حاصل کردہ حکومتی مراعات سے بدستور فیض یاب ہو رہے ہیں ۔ ان کی مراعات میں اس شدید ملکی معاشی بحران میں بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ۔ نتیجہ یہ ہے کہ عوام کے اندر ایک گہری مایوسی پھیل چکی ہے ۔ ملکی ادارے جن کی ذمہ داری عوام کو انواع و اقسام کی مشکلات سے نکالنا اور ان کی زندگیوں میں امن و سکون لانا ہوتا تھا کچھ ایسی شکل اختیار کر چکے ہیں کہ ان سے بندھی امیدیں دم توڑتی نظر آ رہی ہیں ۔ آپ اپنے ملک کے کسی ادارے پر نگاہ ڈال کر دیکھ لیں اور پھر عوام کے چہروں سے اس ادارے کی کارکردگی پڑھ لیں ، آپ پر صورت حال عیاں ہو جائیگی! آپ اپنے ملک کے مختلف اداروں پر نگاہ ڈال لیں ، مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملے گا ۔ مثلاآپ اپنی وفاقی حکومت کی ایک بہت اہم وزارت یعنی وزارت پانی و بجلی کے مختلف اداروں ہی پر غور کر لیں جن کا کام عوام کو بجلی جیسی بنیادی ضرورت فراہم کرنا ہے ، آپ کو ایک بے حسی کی صورت حال واضح نظر آئیگی ۔ آپ کے سامنے ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ روز کا معمول بن چکا ہے اور عوام بجلی کے بلوں کے ہاتھوں نیم پاگل ہوئے پھرتے ہیں لیکن اس محکمہ کے افسران سے لے کر چھوٹے ملازمین تک ، حتی کہ اس محکمہ کے ریٹائرڈ ملازمین بھی ا ج تک بغیر داموں بجلی استعمال کر رہے ہیں۔ کسی نے آج تک یہ سوچنے کی جرات بھی نہیں کی کہ چلیں ان کے ان موج میلوں میں تھوڑی کمی ہی کر دیں۔ اس محکمہ کو تو ایک طرف رکھیں ، اپنے ملک کے دوسرے بے شمار طاقتور لوگوں کو بجلی آج بھی مفت فراہم کی جارہی ہے۔ کئی زیادہ طاقتوروں کو تو یہ بجلی تا دم مرگ مفت فراہم کی جاتی ہے۔ اسی طرح آپ اپنے ملک کے کسی بھی اہم ادارے پر غور کریں گے تو آپ کو ہر سو ناامیدی و مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ عوام کے مفادات کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سب سے پہلے تو عوام کے چنیدہ نمائندوں کی بنتی ہے لیکن اگر آپ کبھی ان کی مراعات اور موج میلوں پر نظر ڈالیں تو آپ کو یقین نہیں آئیگا کہ یہ لوگ ہر قسم کی مراعات سے لطف انداز ہونے کو اپنا سب سے فائق حق سمجھتے ہیں ۔ قوم کو چاہیے کہ وہ جو اپنے نمائندے اسمبلیوں میں بھیجتی ہے کبھی ان کی مراعات پر بھی ضرور نظر ڈالا کرے ۔مزے کی بات یہ بھی ہے کہ عوام کے نمائندے جو اسمبلیوں میں جاتے ہیں وہ زیادہ تر اس ملک کے بڑے لیول کے امرا ہوتے ہیں لیکن ایک دفعہ جب وہ اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں تو پھر ان کے اور ان کے خاندانوں کے موج میلے اس قرضوں پرجیتی قوم کے ذمہ ہو جاتے ہیں۔ چلیں اب ہم عام آدمی کی زندگی کی بات کرتے ہیں۔ پہلے پہل ہم دیکھا کرتے تھے کہ اگر کسی فرد یا خاندان کے ساتھ زیادتی ہوتی تھی تو وہ لوگ بھاگم بھاگ محکمہ پولیس کے پاس جایا کرتے اور اگر انھیں وہاں سے انصاف نہیں ملتا تھا تو وہ لوگ بڑے اعتماد کے ساتھ عدلیہ کے مختلف اداروں میں پہنچ جایا کرتے ۔ ا نہیں اپنے ملک کی عدالتوں سے جلد یا بدیر انصاف مل جایا کرتا تھا ۔ بدقسمتی سے اپنا ملک کچھ یوں ترقی معکوس کا شکار ہوا کہ آہستہ آہستہ اس ملک کے لوگوں کی یہ امید بھی دم توڑنے لگی اور لوگ کہنے لگے کہ انصاف تو اس ملک کے طاقتور لوگوں کو میسر ہوتا ہے جن کے پاس بڑے بڑے اور طاقتور وکلا ہو تے ہیں اور جن کے پاس اثر و رسوخ ہو تا ہے،عام آدمی تو جائے بھاڑ میں! آ پ کا اس ملک کے چھوٹے سے چھوٹے دفتر سے بھی واسطہ پڑ جائے تو آپ پر واضح ہو جاتا ہے کہ اپنے ملک میں ایک عام آدمی کی کیاحیثیت ہے ۔اس ملک کے کسی بھی حکومتی ادارے سے اگر آپ کا کوئی کام یا واسطہ پڑ جائے تو آپ کو یہ واضح ہو جائیگا کہ آپ کو بڑی سفارش کے ساتھ نوٹوں سے بھری جیب کی کتنی ضرورت ہے ۔ آپ کے مشاہدہ میں یہ ضرور ہو گا کہ اس ملک کا کوئی بھی فرد یا خاندان جب یہاں سے چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں جا کر رہنے لگتا ہے تو پھر وہ کبھی بھی واپسی کی راہ نہیں اپناتا حالانکہ ان کے بہت پیارے اسی ملک میں رہتے ہیں۔ یہ میں صرف عام آدمی کی بات نہیں کر رہا بلکہ وہ لوگ اور ان کے خاندان بھی اس ملک میں رہنا پسند نہیں کرتے جنہوں نے اس ملک سے بہت کچھ پایا اور اسی ملک کے وسائل سے انھوں نے باہر کے ملکوں میں کاروبار شروع کئے اور جائیدادیں بنائیں۔سچ پوچھیں ، مجھے یہ سمجھ نہیں لگتی کہ ایسے لوگ اپنے ملک کو جہاں ان کے اپنے رہتے ہیں ایسا کیوں نہیں بناتے جیسا وہ باہر کے ملکوں میں دیکھتے ہیں اور پھر اس سے لطف اٹھاتے ہیں۔ میں نے اس ملک کے سرکاری افسران کی ایک بڑی تعداد کو دیکھا ہے جنہوں نے دہائیوں نوکریاں کیں اور ان سرکاری نوکریوں کی بدولت دولت اکٹھی کی لیکن جائیدادیں اور کاروبار غیر ممالک میں بنائے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ایسے لوگوں کی اولادیں بھی دوسرے ممالک میں تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ایک دو روز پہلے اس ملک کی سب سے بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلہ سنایا اور وہ تھا اپنے ملک میں قومی اور صوبائی الیکشنوں کی تاریخ کا تعین ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس ملک کی سب سے بڑی عدالت کا یہ فیصلہ قابل ستائش ہے کیونکہ موجودہ حالات میں ملک ایسے حالات سے گزر رہا ہے جس کی نہ کوئی سمت ہے اور نہ ہی کوئی منزل نظر آتی ہے! پوری دنیا کے خوشحال اور ترقی یافتہ ممالک کسی نہ کسی نظام کے تحت چلتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ایک ہم ہیں جنہیں اس ملک کے مختلف طاقتور افراد اور ادارے مختلف سمتوں میںہانکتے رہتے ہیں۔ کاش ، اس ملک میں رہنے والے یہ ایک فیصلہ کر لیں کہ ہم ایک جمہوری ملک بن کر رہیں گے اور ملک میں جمہوری حکومتیں ہی ہونگی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here