”ڈائریکٹ” وزیر خارجہ!!!

0
295
مجیب ایس لودھی

کسی بھی ملک کے وزیر خارجہ کا عہدہ ایک نہایت اہم اور معزز ہوتا ہے جس کا ملک کی خارجہ پالیسی مکمل اثر انداز ہوتی ہے،اسی لیے وزیرخارجہ کا انتخاب کسی بھی حکومت کے لیے خاصی اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ وزیر خارجہ کو کسی بھی ملک کا چہرہ قرار دیا جاتا ہے جوکہ عالمی سطح پر ملک کی نمائندگی کرتا ہے ، وزیر خارجہ کے لیے ہمیشہ مستحکم ، مدلل اور خوش اخلاق شخصیت کے مالک افراد کو ترجیح دی جاتی ہے ، پی ٹی آئی کی حکومت کی جانب سے اس اہم عہدہ کے لیے شاہ محمود قریشی کا انتخاب کرنا سمجھ سے بالا تر ہے کیونکہ ان میں سیاسی مدبرانہ شخصیت کہیں دکھائی نہیں دیتی ہے ، وہ ملککی نمائندگی کی بجائے ہمیشہ اپنے عمران خان سے قریبی تعلقات اور اپنے حریف جہانگیر ترین کو نیچا دکھانے کے لیے کاوشوں میں مشغول دکھائی دیتے ہیں ، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں نے ہوش سنبھالا تو آغا شاہی، ذوالفقار علی بھٹو، محمد علی قصوری، سرتاج عزیزوغیرہ نامور وزیر خارجہ تھے، جنہوں نے اپنی ماہرانہ سوچ و تجربہ سے بیرون ملک پاکستان کی پہچان کو بہتر شکل دی، وقت کیساتھ ساتھ دیکھا کہ بیرون ملک سفیروں کے علاوہ اب وزارت خارجہ کا عہدہ بھی اب ڈرامہ باز لوگوں کے ہاتھوں چلا گیا ہے جس کی مثال ہمارے موجودہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ہیں جس عہدے پر وہ بیٹھے ہیں جو ان کی ذمہ داریاں ہونی چاہئیں اس دورے میںان کی مختلف میٹنگ و تقریبات کو قریب سے دیکھا تو اندازہ ہوا کہ نہ ہی ان میں مدبرانہ سوچ ہے اور نہ ہی وہ اس عہدے کے اہل ہیں، انہوں نے پورا ڈرامہ رچایا کہ وہ اپنے ساتھ مختلف ممالک کے وزرائے خارجہ کو فلسطین اسرائیل کے معاملہ کو پُر امن حل کرنے کیلئے لائے ہیں لیکن ان کے آنے سے قبل ہی مصری وزیر خارجہ اور اسرائیلی حکمرانوں نے جنگ کو ختم کرا دیا تھا جس کا وہ بہت ڈھٹائی سے کریڈٹ لے رہے تھے کئی جگہ انہوں نے ایک ہی لکھا سکرپٹ پڑھا کہ وہ کس طرح عمرہ کی ادائیگی وزیر اعظم خان کے ہمراہ کر رہے تھے اور عمران خان نے انہیں ذمہ داری سونپی اور وہ ان دوسرے وزرائے خارجہ کے ہمراہ یہاں تشریف لے آئے۔ ہماری اطلاع کے مطابق انہوں نے کسی بھی کانگریس مین یا سینیٹرز سے عملی طور پرکوئی ملاقات نہیں کی بلکہ زوم پر ملاقاتیں ضرور کیں لیکن ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ شاہ محمود قریشی دراصل نیویارک میں مختلف کمیونٹیز کی میٹنگ میں اپنے نمبرز بناتے رہے بلکہ کئی سینئر صحافیوں نے دبے الفاظ میں کہا کہ وہ مستقبل کیلئے وزیراعظم کے خواب دیکھ رہے ہیں جس طرح انہوں نے پی ٹی آئی کے ورکروں سے اپنی آخری میٹنگ میں بھونڈے طریقے سے جہانگیر ترین سے اپنی پُرانی ذاتی دشمنی کا اظہار کیا اس سے ان کے اندر کا شیطان باہر آتا نظر آیا۔ وہ ایک جانب وزیراعظم کی تعریف کرتے نہیں تھکتے اور دوسری جانب پی ٹی آئی میں دراڑیں ڈالنے کیلئے جہانگیر ترین کو عمران خان سے دُور کرنے کی برابر کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین میں پی ٹی آئی کی حکومت میں آنے سے پہلے کی رنجشیں چل رہی ہیں جس میں وہ وزارت خارجہ کا عہدہ لے کر خود کو عمران خان کے قریب تر ساتھی قرار دیتے نظر آتے ہیں لیکن تاریخ دہراتی ہے جس طرح بھٹو نے وزیر خارجہ ہوتے ہوئے ایوب خان کی کمر میں چُھرا کھونپا تھا اسی طرح شاہ محمود قریشی کبھی بھی عمران خان کو دھوکہ دے سکتے ہیں کیونکہ ان کے پاس نہ کام کرنے کا تجربہ ہے اور نہ ہی عمران خان یا پارٹی سے وفاداری کی کوئی مثال ہے۔ عمران خان کو اگر مستقبل میں کامیاب حکومت کرنی ہے تو ان دونوں کو بٹھا کر معاملہ درست کرانا ضروری ہوگا۔ اگر پارٹی کے اندر ڈسپلن کا فقدان رہا تو آنے والے الیکشن میں پی ٹی آئی کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑے گا جس میں فوج کوئی بھی مدد نہ کر سکے گی کیونکہ فوج اپنے آپ کو مزید سیاسی معاملات میں اُلجھانے کی ہرگز قائل نہیں ہے ، جہانگیر ترین اور عمران خان میں خلیج کافی وسیع ہوچکی ہے جس کا شاہ محمود قریشی بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں اور بیرون ممالک دوروں میں اپنے عمران خان کے ساتھ قریبی تعلقات کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہے ہیں جس کا مقصدعمران خان اور اپنی شخصیت کو اجاگر کرنا نہیں بلکہ حریفوں کو یہ باور کرانا ہے کہ ان کی پارٹی میںپوزیشن کافی مستحکم ہے ، عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد جہانگیر ترین نے خود کو حکومتی معاملات سے دور رکھا جوکہ عملی طور پر اچھا قدم تھا لیکن ان حریفوں خاص طور پر شاہ محمود قریشی نے اس صورتحال کو اپنے حق میںتبدیل کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے جس کا جہانگیر ترین کو کافی نقصان ہوا ہے ، اب گیند عمران خان کے کوٹ میں ہے کہ وہ اس معاملے کو کیسے حل کرتے ہیں ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here