وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے فلسطین کے معاملے پر جس طرح پاکستانی موقف کو اقوام متحدہ میں رکھا وہ بلاشبہ ایک بار پھر پاکستان کی خارجہ پالیسی میں فلسطین کی اہمیت کو بیان کرتا ہے۔ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر پاکستان کی خارجہ پالیسی میں دو وہ اہم نکات ہیں جن پر پاکستان چاہتے ہوئے بھی سمجھوتا نہیں کر سکتا۔ مقبوضہ کشمیر اور فلسطین پر جس دن بھی پاکستان کی کسی حکومت نے کوئی کمزور موقف اپنایا اسی دن اس کو نہ صرف سیاسی طور پر بلکہ اخلاقی طور پر بھی بے پناہ نقصان ہوگا لیکن دیکھا جائے تو ان دونوں عوامل پر کوئی پیش رفت بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ جب بھی فلسطین پر اسرائیل کی جانب سے کوئی پیش قدمی کی جاتی ہے، تمام مسلم اُمہ کے بیچ میں ایک وبال آجاتا ہے، اس سے قبل پوری مسلم اُمہ مزے سے سوتی رہتی ہے۔ دیکھا جائے تو ان دونوں معاملات پر تمام مسلم ممالک کی پالیسی بظاہر یہی نظر آتی ہے کہ جو جیسا ہے ویسے رہنے دو۔ مجھے کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مسلم اُمہ کو اس معاملے سے اتنی دلچسپی ہے جتنی آپ کو کسی پرائے بچے کو دیکھ کر ہوتی ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ اگر اب کی بار مسلم ممالک دوبارہ لاپرواہی کی رضائیاں اوڑھ کر سونے کی بجائے اب اس معاملے کو حل کرنے کی جانب پیش قدمی کریں، اقوام متحدہ میں فلسطین اور کشمیر کی قراردادیں پہلے سے موجود ہیں، اب سفارتی سطح پر کوشش کی جائے کوئی ملک اس کو ویٹو کرنے کی بجائے دنیا میں امن کی خاطر ویٹو کے حق کی قربانی دیتے ہوئے ان تنازعات کو حل کرنے میں مدد کریں۔ دنیا اب آہستہ آہستہ معاشی میدانوں میں ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہے، مگر مسلم اُمہ کو یہ دو تنازعات معاشی منڈیوں میں اپنے اثرورسوخ اور تعلقات کو بڑھانے میں کسی حد تک اثر انداز ہوتے ہیں۔ حکمرانوں کی اپنی عیاشیاں تعلقات تو کسی سے پوشیدہ نہیں مگر خارجہ پالیسی کے نام پر دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات کو متاثر کرنے کا براہ راست اثر مسلم ممالک کی عوام پر پڑ رہا ہے۔ کیا ہم یہی دیکھتے رہیں گے کہ کوئی آئے ، ہمیں تھپڑ مارے اور اس کے بعد ہم احتجاجی رویہ اختیار کرتے ہوئے سڑکوں پر مظاہرے کرنے نکل پڑیں۔ اُلٹا بعض اوقات تو ہم اپنی ہی املاک کو نقصان پہنچا کر اپنے غصے کا اظہار کرتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر آج تمام مسلم ممالک اکٹھے ہوکر ایک مشترکہ خارجہ پالیسی اپناتے ہوئے موثر انداز میں یہ دونوں تنازعات حل کرنے کے لیے دنیا پر دباؤ ڈالیں تو ممکن ہے مستقبل قریب میں یہ دونوں تنازعات ڈائیلاگ کی ٹیبل پر حل ہو جائیں۔ تنازعات حل کرنے کے لیے جذباتی تقریریں نہیں، اب عملی اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے۔
٭٭٭