سال نو سے پہلے نہ جانے کتنے رشتے داروں، بہن بھائیوں، بھانجوں بھتیجوں، دوستوں، ہمدردوں اور ساتھیوں سے محروم ہوچکا ہوں کہ جن کا ذکر کرنا مشکل ہوچکا ہے۔علاوہ ازیں طلباء تحریکوں کے ساتھیوں کا اس دنیا سے آہستہ آہستہ رخصت ہونا بسا اوقات بہت یاد آتا ہے اور دل غمزدہ ہوجاتا ہے کہ جن کے ساتھ مشترکہ جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔پچھلے سال ہمارے دیرینہ نوجوانی کے ساتھی عاقل لودھی ایڈووکیٹ، شکیل احمد ایڈووکیٹ اور مشہور بشراعظمی صحافی کی موت کا بہت غم ہوا جنہوں نے ساری زندگی جدوجہد میں گزار دی تھی کہ پاکستان میں جمہوریت کا قیام ہو۔قانون کی حکمرانی قائم ہو شہریوں کو برابر کے حقوق ملیں۔انسانی بہتری اور بنیادی حقوق کی پامالی نہ ہو جس کے لیے ہمارے تمام ساتھیوں کو مختلف ادوار میں ذہنی جسمانی اور مالی مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہے۔عوامی مسائل کی خاطر جیلوں کی زینت بنے رہے۔قبل ازیں طالب تحریکوں کے بانی اور ملک کے مشہور سیاستدان معراج محمد خان مختیار علی خان، سعید حسن، علامہ علی مختار رضوی، سید شہنشاہ حسین، منور حسن، امیر حیدر کاظمی، ممتاز مفتی، جام ساقی اور دوسرے بزرگ ساتھی یہ دنیا چھوڑ گئے۔بعدازاں ہمارے ہم عصر اور نوجوانی کے ہم خیال ساتھی تنویر زیدی، خالد محمود ناصر، مستجاب مہدی، اقبال صدیقی، عرفان صدیقی،افضال انور، خواجہ ہمایوں، رانا صفدر تقی، ایس ایچ آغا، احمد دادا، وہاب صدیقی، سعید عالم ہمیں خیرباد کہہ کر چلے گئے۔جبکہ امریکہ میں آباد بیرون ملک کے ساتھی منور اقبال ایڈووکیٹ، انعام عباسی ایڈووکیٹ، چوہدری صادق ایڈووکیٹ، ارشد اقبال چیمہ ایڈووکیٹ، لطیف ڈاڈا، خالد نور، اشرف میاں بھی ساتھ چھوڑ گئے۔جنہوں نے ساری زندگی آمروں اور جابروں کا دن رات مقابلہ کیا ہے جن کی پیدائش تربیت اور عالمیت طلباء تحریکوں اور عوامی تحریکوں میں ہوئی تھی۔جن کی جدوجہد کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔جو ہمارے لئے بہادر نڈر اور ہیرو تھے۔جن سے پاکستان آج محروم ہوچکا ہے۔جن کی بدولت آج پاکستان میں جو کچھ ہل چل نظر آرہی ہے۔وہ مذکورہ بالا حرمومین کی وجہ یہ ہے۔تاہم پاکستان میں طلبا مزدور اور عوامی تحریکوں سے ملک بنا ہے ان کے پیروکاروں سے بچا کھچا ملک قائم ہے۔کاش بنگال کی تحریک پر عمل ہوتا تو آج پاکستان بچ جاتا تو ملک دنیا کا مضبوط ترین اور ترقی یافتہ کہلاتا مگر پاکستان کی اشرافیہ نے احتجاجی تحریکوں پر دھیان دینے کی بجائے ملک توڑنا نامناسب سمجھا جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے کہ آج بھی ملک کے صوبوں اور اکائیوں کی بے چینوں اور کشیدگیوں پر غوروفکر کرنے ساتھی کی بجائے خود ساختہ رپورٹ حکمرانوں سے کام کیا جارہا ہے۔کہ آج پاکستان تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے جس کے ادارے جس سے قومی اثاثے گروی رکھے جارہے ہیں۔آج اسٹیٹ بنک ہاتھ سے چلا گیا۔ایک کل کلاں نے فوج بھی کسی کے حوالے کردی جائیگی۔جس طرح مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج آخر کا انگریز کے ہاتھوں خرید لی گئی تھی جس نے انگریز کے حکم پر ہندوستان کے آزادی اور حریت پسندوں کا قتل عام کیا تھا۔جس کے ہاتھوں1857کی جنگ آزادی میں بنگالی عوام کا قتل کیا گیا۔جلیانوالہ باغ میں پنجابیوں کا نو ماراگیا۔حریت پسند بھگت سنگھ کو سولی پر لٹکایا گیا۔احمد خان کھرل کو مارا گیا ہندوستان کی تمام آزادی کی تحریکوں کو کچلا گیا۔جس میں صرف اور صرف ہندوستان کی فوج شامل تھی جو انگریزوں کے حکم پر قتل کر رہی تھی۔بہرکیف اگر جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک میں جنرل یحیٰی خان مارشلا نہ لگاتا۔شیخ مجیب کی تحریک پر اقتدار نہیں دینے کی بجائے ملک نہ توڑا جاتا۔بھٹو کیخلاف تحریک کی آڑ میںمارشلا نہ نافذ ہوتا۔ایم آر ڈی کی تحریک کے خلاف ظلم وبربریت اختیار نہ کی جاتی۔ملک میں سیاسی پارٹیوں کی بجائے غیر قانونی، غیر آئینی اور غیر جماعتی انتخابات منعقد نہ ہوئے۔جنرل مشرف دو مرتبہ بارہ اکتوبر1999اور تین نومبر2007کو مارشلا نہ لگائے۔سول حکومت کی برطرف نہ کرتے۔عدلیہ کی برطرف نہ کرتے تو پاکستان آج دنیا کے پہلے نمبر پر ہوتا۔آج دنیا میں سب سے نچلے درجے میں شمار ہو رہا ہے۔بہرحال تحریکوں کے ساتھیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے مقصد اور مطلب صرف یہ ہے کہ جنہوں نے ہمیں وہ راستہ دیکھایا ہے۔کہ ایک طرف غاصبوں اور ظالموں کی یزیدی طاقتیں میں دوسری طرف حسینی قوتیں میں جس میں ہمیں سبق ملتا ہے۔کہ اب آپ کو چنائو کرنا ہوگا کہ ہم ظالم کے ساتھی بنیں یا مظلوم کے حامی شدید یہ لوگ صحیح اور سچے ثابت ہوئے کہ آج پاکستان کی پوری عوام ہر حالت میں یزیدی طاقتوں کے خلاف ردعمل کا اظہار کر رہی ہے جن کو بدقسمتی سے سنت حسین پر عمل کرنے والی قیادت میسر نہیں ہے۔جو یزیدی طاقتوں کے خلاف کھلم کھلا اعلان جہاد کرے ورنہ یہ طاقتیں اب چند دن کی مہمان ہوتیں۔مگر مایوسی کفر ہے وہ دن دور نہیں ہیں کہ جب پاکستانی عوام بھی بنگالی، ترکی اور ایرانی عوام کی طرح اپنے حقیقی دشمنوں سے نجات پالیں گے جس کے لیے بروقت کا گھڑیاںبچ چکا ہے۔جس کو سننے کی شدید ضرورت ہے ورنہ دیر ہوگئی تو سب کے لیے بہتر نہیں ہوگا۔
٭٭٭