اکثر آپس کے تعلقات غلط فہمیوں ،بے بنیاد بدگمانیوں کی بنا پر خراب ہوتے ہیں کیونکہ شیطان انسان کے ساتھ ہر دم لگا ہوا ہے، ایک لمحے کیلئے اگر فرض کر لیں کہ کسی ایک ساتھی نے کسی دوسرے سے کوئی بدسلوکی کرلی ،زبان سے اس کا دل دُکھایا اور عمل ایسا کیا جس سے اسے تکلیف پہنچی ہو تو کیا اب دوسرا ساتھی غصے میں آکر یا مشتعل ہو کر عزت نفس اور غیرت کے چکروں میں پڑ کر شکوہ شکایت اور رد وکد میں وقت ضائع کرنا شروع کر دے جس کی غیرت اور عزت نفس ایسی چھوئی موئی کا پودا ہوگی، اس کے لیے تو اللہ کی راہ پر چلنا یا مسلمان بن کر رہنا مشکل ہو جائے یہاں تو مالی ،جسمانی، قلبی و ذہنی ہر قسم کی اذیت کو سہنے کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے ،اس لیے کہ یہ دنیا ہے اور یہاں پر ہر طرح کے لوگ رہتے ہیں کچھ ہمیں پسند کرتے ہیں اور کچھ ہمیں ناپسند کرتے ہیں یہ بھی ممکن ہے کہ ہمارے اندر کچھ ایسی خرابیاں ہوں جو واقعی ساتھ رہنے اور ساتھ چلنے والوں کو تکلیف دیتی ہوں اور ہمیں اس کا احساس ہی نہ ہو۔
یہ بھی کوئی بات ہے کہ انسان ذرا سی بات بھی نہ سہ سکے بعض لوگوں کی تو صورت حال یہ ہوتی ہے کہ کچھ لوگوں کی تو ہر طرح کے طعن وتشنیع اور بد سلوکی کو خندہ پیشانی اور اعلیٰ ظرفی کے ساتھ برداشت کر لیتے ہیں لیکن کچھ لوگوں کو جن کو نا پسند کرتے ہیں جن کے مطابق ان کا گمان برُا ہوتا ہے، ان کی وہ ذرا سی بھی برداشت نہیں کرتے یا کچھ لوگ جنھیں وہ بہت اچھا سمجھتے ہیں وہ ہر وقت ان کے ساتھ رہتے ہیں ان سے محبت کرتے ہیں جیسے بہن بھائی، ساتھ کام کرنے والے ساتھی ،دینی ساتھی اگر ان کی طرف سے کوئی ایسی بات ہو جاتی ہے تو ان کو انتہائی برُا لگ جاتا ہے حالانکہ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ہم سے محبت کرنے والے ہوتے ہیں ان سے خوش اسلوبی کے ساتھ نمٹا جائے ،سو چا جائے تو یہ شیطان کا چلایا ہوا ایک چکر ہوتا ہے کہ انسان کو انسان سے بد ظن کیا جائے ایسے لوگوں کے ساتھ جن کے ساتھ وہ ہر وقت رہتا ہے جن سے وہ محبت کرتا ہے جن کے ساتھ وہ دین کا کام کر رہا ہوتا ہے ان کو معاف کرنے کے لیے تیار نہ رہے لیکن جن کو وہ دور سے دیکھتا ہے کبھی کبھی ملتا ہے ان کو وہ بخشنے کے لیے تیار رہتا ہے حالانکہ سوچا جائے تو درگزر کے اور معافی کے زیادہ مستحق وہ لوگ ہوتے ہیں جو ہمارے زیادہ قریب رہتے ہیں سورہ حامیم سجدہ کی آیت نمبر 34 35 36 میں اللہ تعالی ٰارشاد فرماتے ہیں اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں تم بدی کو اس سے کیسے دفع کرو جو بہترین ہو تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی، وہ جگری دوست بن گیا ،یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جو بڑے نصیب والے ہیں اور اگر تم شیطان کی طرف سے کوئی اکساہٹ محسوس کرو تو اللہ کی پناہ مانگ لو وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے ۔سید سلیمان ندوی ان آیات کو بیان کرکے فرماتے ہیں کہ آیت کے آخری حصے سے واضح ہوتا ہے کہ غصہ اور اشتعال کے سبب سے معافی اور درگزر کے خلاف انسان سے جو حرکت ہو جاتی ہے وہ شیطانی کام ہے اس سے خدا کی پناہ مانگنی چاہئے، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس آیت کی تفسیر میں منقول ہے کہ انہوں نے کہا خدا نے اس آیت میں ایمان والوں کو غیض و غضب نے صبر کا نادانی اور جہالت کے وقت حلم و بردباری کا اور برائی کے مقابلے میں معافی اور درگزر کا حکم دیا ہے، جب وہ ایسا کریں گے تو خدا ان کو شیطان کے اثر سے محفوظ رکھے گا ،دنیا میں خیر کی راہ پر چلنے کے لئے یا لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کے لئے یا دین کی دعوت دینے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ بات صرف لوگوں کو تشریح کرکے سمجھانے کے لیے نہیں ہیں خود عمل کرنے کے لئے بھی ہیں، معافی اور درگزر کے متعلق عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ مشکل ترین کاموں میں سے ہے لیکن اگر انسان یہ یاد کرلے کہ یہ غصہ جو مجھے آ رہا ہے شیطان کی طرف سے ہے اور دل کو بدلنے کی کوشش کرے تو خدا کی توفیق سے یہ مشکل ترین کام آسان ہو جاتا ہے اتنا ہی سوچ لینا چاہیے کہ آخر ہمارے کسی ساتھی نے ہمیں قتل تو نہیں کر دیا نہ ہی وہ ہمیں مار پیٹ رہا ہے ۔ بس اتنا ہی ہے نا کہ اس نے کوئی دل دکھانے والی بات کہہ دی ہے تو زبانوں سے تو انبیابھی نہ بچے، بڑے بڑے اولیا بھی نہ بچے !ہمارا رتبہ کیا ہے ؟ نعوذباللہ ان سے بھی اونچا ہوگیا ہے ؟ کہ ہم آپے اسے باہر ہو جائیں !آخر ہماری شان کے خلاف کسی نے زبان کیوں ہلائی ؟
اگر انسان دل کو اس طرح سمجھا لے تو انسانی دل اتنا برا بھی نہیں ہے جتنا عام طور پر سمجھا جاتا ہے ۔وہ بات کو سمجھ بھی لیتا ہے اور جب وہ صحیح بات کو سمجھ لے تو پھر معافی اور درگزر میں اس کے لئے راحت ہی راحت ہوتی ہے ،دل کو معافی اور درگزر کی طرف مائل کرنے کے لیے نیکوکار ہستیوں کے حالات کا مطالعہ بے حد مفید ہوتا ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اپنے دلوں کو ایسا بنا لیا تھا کہ نہیں معافی اور درگزر میں ہی سکون ملتا تھا،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جو شخص معافی اور درگزر سے کام لیتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھاتا ہے مسلم کی حدیث ہے ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی نصیحت کیجئے آپ نے فرمایا غصہ نہ کیا کرو اس نے بار بار یہی الفاظ دہرائے کہ مجھے نصیحت کیجئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار یہی فرمایا کہ غصہ نہ کیا کرو (بخاری)ایک بار حضرت عمر بن عبدالعزیز کو کسی نے نامناسب کلمات کہے آپ جواب میں خاموش رہے ! لوگوں نے کہا آپ کیوں چپ ہیں فرمایا کہ خدا کے خوف نے منہ پر لگام لگا دی ہے۔
حضرت امام حسن کو ایک بدو نے مجمع عام میں برا بھلا کہنا شروع کر دیا لوگوں کو اس پر غصہ آیا ۔ تو آپ نے فرمایا کہ وہ تمہیں تو کچھ نہیں کہہ رہا، مجھے کہہ رہا ہے پھر آپ نے فرمایا کہ غریب بھوکا ہو گا، کھانا کھلا ئو،حد عمدہ کپڑے دو ،خرچ سے تنگ ہو گا پیسے دے دو ،غرض کے آپ کے حکم کی تعمیل کی گئی تیسرے دن اس شخص کو بلا کر فرمایا کیوں بھائی اب بھی تم مجھ سے خفا ہو ،وہ شخص یہ سن کر رو پڑا اور کہا کہ میں پہلے بھی خفا نہ تھا اور اب بھی نہیں ہوں ،میں تو صرف امتحان لے رہا تھا کہ دیکھوں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خون آپ میں کس قدر ہے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا الحمدللہ ہم پہاڑ ہیں ایسے جھونکوں سے ہلنے والے نہیں ہیں، معافی اور درگزر میں دُہرا فائدہ ہے، اپنے دل میں صبر اور اعلیٰ ظرفی پیدا ہوتی ہے اور ساتھیوں کے ساتھ اُلفت اور محبت قائم رہتی ہے اگر ہم تہیہ کر لیں اپنی محبت میں کمی نہ آنے دیں گے تو آخر کوئی کہاں تک اپنی ناراضی کو قائم رکھ سکے گا کہ پہاڑ بننے میں جو وقار اور سکون قلب ہے ان چھوٹی ٹہنی بننے میں کہاں ہے جو ذرا سی ہوا کے جھونکے سے لرزنا اور تلملاناشروع کر دیتا ہے، ماڈرن زبان میں سمجھنا ہو تو پانی کی بوتل بنو جتنا بھی جھنجھوڑا جائے پرسکون رہتا ہے ،سوڈے کی بوتل نہ بنو جو ذرا سا ہلانے پر اُبل پڑتاہے ،اللہ ہمیں حکمت وبصیرت کی باتیں سمجھنے اور عمل کرنے والا بنائے، آمین یارب العالمین!
٭٭٭