امن وامان کی بگڑتی صورتحال اور انتخابات! !!

0
68
پیر مکرم الحق

8فروری کے انتخابات سے دس دن پہلے امن وامان کی صورتحال اتنی خراب ہوچکی ہے کہ اب محسوس ہو رہا ہے کہ انتخابات سے پہلے کچھ ایسا واقعہ ہوگا کہ انتخابات موخر ہوجائینگے اگر انتخابات موخر نہ ہوئے تو8فروری کے انتخابات ملکی تاریخ کے سب سے خونی انتخابات ہونگے ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ تمام جماعتیں ایک دوسرے کے جانی دشمن ہیں اور خون کے پیاسے ہیں کل تک جو جماعتیں ایک بار نہیں کئی بار اتحادی رہی ہیں اب وہ ایک دوسرے کا نام سننے کے متحمل نہیں ہیں۔ نگران حکومت لگتا ہے کہ اپنے دور حکومت کو طوالت دینا چاہتی ہیں۔ پاکستان میں جو بھی کرسی اقتدار پر بیٹھتا ہے خود سے اٹھنا نہیں چاہتا۔ بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کچھ مستند صحافی جو نگران کابینہ کا حصہ ہیں وہ بھی حکومت میں آتے ہی حکمرانی کے طرز اور طریقے میں بول رہے ہیں حالانکہ یہ ایک محدود مدت کی ذمہ داری ہے۔ اور پھر سے انکو صحافت کے کام میں واپس آنا ہے۔ انکے رویے سے یہ لگتا ہے کہ انہیں معلوم ہے کہ نگرانی طویل المدت ہوگی یعنی تھوڑی سے م مدت کیلئے آنے والے جلدی نہیں جائیں گے۔ سیاسی جماعتیں بھی سمجھ رہی ہیں کہ آنے والے انتخابات کے نتائج چوں چوں کا مربہ ہونگے۔ اس لئے آزاد امیدوار اور انصاف آزاد امیدواروں کی بولی لگنا شروع ہوگئی ہے۔ ان عام انتخابات میں ایوبی بنیادی جمہوریت یا کسی جھلک نظر آرہی ہے۔ البتہ قاضی فائز عیٰسی صاحب چیف جسٹس صاحب نے اپنا وزن انتخابات کو8فروری ہی کو کرانے والے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ان پر بوجھ ڈالنے سے گریزاں ہے کیونکہ اگر عدلیہ سے ٹھن گئی تو معاملات مزید خراب ہونے کا خدشہ بڑھ جائیگا۔ کچھ یوں لگ رہا ہے کہ طاقتور بیرونی قوتوں نے بھانپ لیا ہے کہ لوہا گرم ہے اور پاکستان کے چاروں صوبوں میں دوری ڈالنے کا اس سے بہتر موقعہ شاید پھر نہ ملے۔ بلوچستان کے حالات تیزی سے بگڑتے جارہے ہیں۔ گوریلا جنگ کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔ جماعت اسلامی جیسی صاف ستھری جماعت نے کراچی میں لسانی عصیبت پھیلا کر اندرون سندھ کے لوگوں کو وڈیرہ شاہی کا لقب دیکر الطاف حسین کے انداز سیاست کو اپنانے کی بھونڈی کوشش کی ہے جماعت اسلامی کراچی کی سربراہ حافظ نعیم لسانی عصیبت کو بھرپور ہوا دیکر سندھی بولنے والوں کے احساسات کو مجروح کیا ہے، بحرحال حافظ نعیم ایسی کردار کی جھلک دکھا رہے ہیں جو بنگلہ دیش میں البدر اور الشمس نے ادا کیا تھا۔ اسلامک اخوت اور بھائی چارہ سے حافظ نعیم کا اب کوئی تعلق نظر نہیں آتا کیونکہ الطاف حسین نے کراچی میں جو نفرت کے بیچ بوئے تھے وہ اب پروان چڑھ کر درخت بن گئے ہیں۔ جس کے سائے میں نفرت کا چوران تو فوراً بکتا ہے اتحاد والیمان کی بات اب لوگ سننے اور سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ محسوس یہی ہو رہا ہے کہ آج سے پچھتر سال پہلے جو بات ابوالخلافہ آزاد کہہ گئے تھے وہی ہونے جارہا ہے کم ازکم یہ سب کچھ مولانا سراج الحق کی سربراہی میں نہیں ہونا چاہئے۔ تحریک انصاف سوشل میڈیا پر تو اپنی مظلومیت کا رونا رو کر لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتی ہے لیکن اس جماعت کے کارکن کسی قانون کو تسلیم نہیں کرتے انکا رویہ9مئی والوں کی تقلید کرتا نظر آرہا ہے۔ دوسری طرف اپنے امیدواروں کو بھی پیغام دیدیا ہے کہ اگر منتخب ہونے کے بعد وفاداریاں تبدیل ہوئیں تو تمہاری اور خاندان والوں کی خیر نہیں کیونکہ تحریک انصاف والوں کے لئے کوئی حد ہے ہی نہیں وہ جو کریں انکو اجازت ہے اگر نہیں بھی ہے تو انہیں کوئی پرواہ نہیں وہ دیواریں پھلاند لیں گے۔اور نہ پھلاند سکے تو دیواریں توڑ کر داخل ہوجائیں گے آج انکے لیڈر جیل میں ہے جن حرکتوں کی وجہ سے یہ بچارے تو پجاری ہیں کسی کے انہوں نے بھی وہی کرنا ہے جو انکا دیوتا کرتا ہے۔ یہ جماعت بمع اپنے کارکنوں کے ملک کو انار کی کی طرف تیزی سے دھکیل رہے ہیں۔ پاکستان کی عوام کو سمجھ لینا چاہئے یہ کسی طرح بھی نہ ملک اور نہ ہی ملک کے لوگوں کیلئے کوئی بہتر صورتحال پیدا کرنے کا جواز بن سکتا ہے۔ ہمارے درمیان کتنے بھی اختلاف موجود ہوں وہ ملجل کر حل کئے جاسکتے ہیں لیکن اگر وہ یا کوئی بھی کسی بیرونی سازش کا آلہ کار بن کر ملکی مفادات یا ملکی حفاظت کے لئے خطرہ بنیں گے تو اس کشتی میں تو بس سوار ہیں اس طرح کی مہم جوئی سب کیلئے خراب ہوگی۔ بیرسٹر گوہر منتخب چیئرمین تحریک انصاف نے اندھیرے ماضی سے روشن مستقبل دینے کی بات کی ہے۔ اندھیرے ماضی سے روشن مستقبل دینے کی بات کی ہے جو خوش آئند ہے لیکن انکی آواز تو نقار خانے میں طوطی کی آواز انکی بات تو شیر محمد مروت نہیں مانتا۔ انہوں نے بات کی ہے تاکہ سچائی اور مفاہمت کی راہ لیکر حقائق کی سطح تک پہنچا جائے۔ بہرحال اچھی باتیں تو سب کرتے ہیں ان پر عمل کرنا سب سے مشکل کام ہے۔ 8فروری کے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کروانا بھی انتہائی دشوار گزار مرحلہ ہوگا۔ کیونکہ انتخابات کو اتنا متنازعہ بنا دیا گیا ہے کہ اگر آنے والے انتخابات بخیر وخوبی ہو بھی گئے تو نتائج کا تنازعہ شروع ہوجائیگا۔ پھر اس تنازعہ سے ایک صاف شفاف اور غیر متنازعہ انتخابات کا مطالبہ جنم لیگا۔معاشی حالات اور بگڑ گئے تو دوسرے انتخابات کیلئے وسائل ہی نہیں کرینگے اس طرح آئندہ سال تک ملک انار کی اور لاقانونیت کا شکار ہوسکتا ہے۔ اللہ خیر کرے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here