”لیڈر کا انتخاب”

0
38
مفتی عبدالرحمن قمر
مفتی عبدالرحمن قمر

سورہ دھر جسے سورہ انسان بھی کہتے ہیں، پہلی تین آیات میں ہمیں ہماری حیثیت یاد دلا کر بتایا کہ اے میرے بندے میں نے جیسے بھی بنایا وہ کوئی قابل ذکر چیز نہیں تھی مگر جب بنا دیا تو پھر میں نے تمہیں اپنی دو صفتیں عطا کردیں اور پھر تمہیں اچھے اور برُے راستے کی ہدایت دے کر آزاد چھوڑ دیا۔ اب تیری مرضی ہے کہ تو میرا شکر گزار بندہ بن یا نافرمان بندہ بن ،غور طلب بات یہ ہے وہ جو صفتیں ہمیں عطا کی گئیں وہ سمیع وبصیر ہے اور دوہی راستے ہمیں تلقین کیے گئے۔ سیدھا راستہ اور اُلٹا راستہ مکمل اختیار کے ساتھ۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں پتہ نہیں۔ سیدھا راستہ سیدھا راستہ ہے۔الٹا راستہ الٹا راستہ ہوتا کیا ہے کہ ہم خدائی ہتھیار استعمال نہیں کرتے اپنی ناقص سوچ کو اپناتے ہیں۔ میرے ساتھ ایک لطیفہ پیش آیا ایک حج میں میرے ساتھ ایک نو دولیتے بھی تشریف لے گئے۔ عرفات میں ہمیں پہاڑ کے دامن ٹھہرایا گیا۔ ظہر کی نماز میں ابھی وقت وہ فرمانے لگے۔ مفتی صاحب چلو پہاڑ کے اوپر چکر لگا کر آتے ہیں۔ میں نے کہا چلو ٹھیک ہے۔ ابھی وقت ہے برکت کے لئے چڑھ جاتے ہیں۔ پہاڑ کے اوپر ایک بدو بکریاں چرا رہا تھا۔ حاجی صاحب فرمانے لگے۔ مفتی صاحب عربی میں بات کرو۔ اور پوچھو بکرا کتنے کاا ہے میں نے پوچھا اس نے بتا دیا جھٹ سے اس نے نو بکروں کے پیسے نکالے اور بدو کو دے دیئے اور کہا نو بکرے ذبح کردو وہ بھی حیران ہوگیا میں نے کہا حاجی صاحب اللہ ورسول کا حکم ہے۔ قربانی منیٰ میں کرنی ہے۔ یہاں صرف دعا مانگنی ہے فرمانے لگے دعا مانگو کس نے منع کیا ہے۔ میں نے فیصلہ کرلیا میں قربانی یہیں کروں گا۔ چنانچہ نوبکرے ذبح کرا دیئے۔ فرمانے لگے یہ حکم احکام تم قرآن پڑھنے والوں کے لئے ہیں ہم عام آدمی ہیں۔ سو اے میرے بھائیو لیڈر کے اوصاف اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اور سرکار دو عالم کے فرمانات میں موجود ہیں۔ چیدہ چیدہ عرض کرتا ہوں۔ نماز کا پابند ہو۔ زکواة باقاعدگی سے دیتا ہو۔ اور مسجد جا کر باجماعت پڑھتا ہو۔ صلہ رحم ہو۔ ماں باپ کا گستاخ نہ ہو۔ گالی پھلا کر بات نہ کرتا ہو۔ یعنی تکبر کا مریض نہ ہو۔ چال میں رفتار میں متانت ہو حسن اخلاق کی چلتی پھرتی تصویر ہو۔ وعدہ خلاف نہ ہو۔ اعلان نبوت کے بعد صحابہ کرام بیٹھے تھے۔ اپنے اپنے اسلام لانے کا واقعات دُہرا رہے۔ ابی الحمساء نے کہا کہ میں اعلان نبوت پہلے ہی ایمان لا چکا تھا۔ صحابہ بڑے حیران ہوئے۔ وہ کیسے کہنے لگا وہ ایسے کہ میں نے نبی پاک سے کچھ لین دین کیا۔ رقم کم پڑ گئی۔ میں نے کہا محمدۖ یہیں رکو میں ابھی رقم لے کر آتا ہوں۔ گھر جاکر بھول گیا تین دن کے بعد یاد آیا میں بھاگم بھاگ پہنچا۔ کہ شرماری سے میں پسینہ پسینہ تھا لیکن محمدۖ وہیں کھڑے تھے۔ میرے پاس معذرت کے الفاظ نہیں تھے۔ سر جکا ہوا تھا مگر محمدۖ کے ماتھے ہر غصے نفرت کے کچھ بھی آثار نہ تھے۔ صرف مجھے اتنا کہا نوجوان تم نے میرا بڑا امتحان لیا۔ میں تین دن سے یہیں کھڑا ہوں۔ میں دل سے مان کر ایمان لایا۔ کہ یہی آدمی میرا انتخاب ہے اور لیڈری کے لائق ہے کیا ہم انتخاب کرتے وقت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی لاج رکھیں گے۔ یا کہیں گے ہمیں کردار سے کیا لینا دینا صرف ہمارا سیاسی لیڈر ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here