پاکستان کے مایہ ناز ماہر قانون اعتزاز احسن نے گزشتہ دنوں اپنے ایک انٹرویو میں اس بات کا شکایتی انداز میں اظہار کیا کہ مجھ سے پاکستان کے آئین کے متعلق سوال نہ کیا کریں کیونکہ پاکستان میں آئین نام کی چیز ہی کوئی نہیں۔یہ بات ان کی ہر دل کو لگی مگر وہ شاید اس بات کا اظہار کرنا بھول گئے کہ پاکستان میں آئین نام کے چیز نہ صرف موجود ہوا کرتی تھی بلکہ اس کے نفاذ کے لیے کی جانے والی کوششوں کی راہ میں انہی کے پیشے سے وابستہ ایک ادارہ رہا جسے عدلیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔کاش اعتزاز احسن یہ الزام پاکستان کے سیاست دانوں پر تھوپنے کی بجائے اپنے ادارے کی طرف منہ کر کے کہتے۔یہ سچ ہے کہ پاکستان میں آئین کی پامالی سرعام ہو رہی ہے جو جتنا طاقتور ہے وہ پاکستان کے نظام کو اتنا ہی اپنی مرضی سے چلا رہا ہے یوں پاکستان میں آج انتخابات آئین میں دی گئی مدت میں ممکن نہ ہو سکے۔سچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں سیاستدان ہمیشہ سے کٹھ پتلیوں کا کردار ادا کرتے رہے اور شاید مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوتا رہے مگر اعتزاز احسن نے کبھی یہ آواز اس وقت بلند نہ کی جب سابقہ دور میں آئین اور قانون کو رکھیل بنا کر رکھا گیا۔ آئین اور قانون کی من مرضی کی تشریح کروانے والوں کے خلاف ان کی زبان کو تالے لگ جاتے تھے اور آج میدان میں جب پاکستان تحریک انصاف کو رگڑا لگ رہا ہے اور ان لوگوں کا بس نہیں چل رہا تو بے بسی کے انداز میں یہی کہنے کو رہ جاتا ہے کہ پاکستان میں آئین نام کی کوئی چیز نہیں۔کالے کوٹوں میں اگر کسی نے آئین کی سربلندی کے لیے کام کیا تو ہم بلاجھجک عاصمہ جہانگیر کا نام لے رکھ سکتے ہیں جن کی آواز ہمیشہ سے پاکستان کے ائین کو بٹو تلے روندنے والوں کی خواہشوں کو للکارتی رہی، کالے کوٹ کی عزت کو اگر کسی نے بحال رکھا تو ہم عاصمہ جہانگیر کو ہی یہ اعزاز دے سکتے ہیں، باقی ان کٹھ پتلیوں سے کوئی توقع رکھنا بے وقوفی میں پرلے درجے کی مثال کی مانند ہوگا۔
٭٭٭