خون سے اٹی لاشیں، کہیں ٹانگیں، کہیں سر ، کہیں دھڑ بکھرے پڑے ہیں، بچوں کی آہوں بقا، کوئی پرسان حال نہیں، آج میری قلم میرا ساتھ ہر گز نہیں دے رہی، سمجھ نہیں آ رہی مظالم کو کیسے بیان کروں، الفاظ کم پڑ چکے ہیں ،غزہ کی دھرتی کسی ذبحہ خانہ کا منظر پیش کر رہی ہے ، ہر منہدم عمارت ،ملبے کے نیچے انسانی اعضا ظلم کی انتہا کی منظر کشی کر رہے ہیں ، اسرائیلی فورسز کی جانب سے غزہ پر حملوں کا سلسلہ جاری و ساری ہے، غزہ اس وقت کھنڈر کی صورت اختیار کر چکا ہے لیکن حملوں میں کوئی کمی نہیں آ رہی ، دوسری طرف اسرائیلی فورسز نے عالمی دبائو کو مسترد کرتے ہوئے غزہ میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ غزہ میں رہائش پذیر فلسطینیوں نے اسرائیلی فورسز کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے ہوئے کہا کہ اگر اسرائیلی فورسز غزہ میں داخل ہوئیں تو وہ ہٹلر کے مظالم کو بھول جائیں گی، فلسطینیوں کے سوشل میڈیا پر دھمکی آمیز بیانات کافی وائرل ہو رہے ہیں ۔اسرائیل نے غزہ کا مکمل محاصرہ کر رکھا ہے، 23 لاکھ افراد کو پانی، کھانے اور ایندھن کی فراہمی معطل ہے جبکہ مواصلاتی نظام منقطع ہے۔حماس نے 7 اکتوبر کو حملے کے دوران 242 اسرائیلیوں کو یرغمال بنالیا تھا جن میں سے 4 کو انسانی بنیادوں پر رہا کردیا گیا ہے۔اسرائیل کی جانب سے جاری بمباری کے نتیجے میں اب تک 10 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں جس میں 3 ہزار سے زائد بچے بھی شامل ہیں، جبکہ 20 ہزار سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں، مغربی اتحادیوں نے اسرائیل کی جانب سے غزہ پر بمباری کی مکمل حمایت کی ہے جبکہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم نے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی ہے،یمن کے حوثی باغیوں نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائل حملے کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ایک اتوار کی صبح میں نیویارک میں ایک چین اسٹور میں ہفتہ وار گروسری خرید رہا تھا، یہ مصروف وقت تھا، خریدار جلدی جلدی اشیاء اٹھا رہے تھے۔ میں تصادفی طور پر گروسری ضروری سامان اٹھا رہا تھا۔ ایک موقع پر، میں ایک بڑی ٹوکری پرآ کر رک گیا جس میں تربوز تھے۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ کون سا اٹھاؤں۔ مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا کہ پکی ہوئی کو کیسے چیک کروں۔ میرے پیچھے ایک بزرگ خاتون نے میری ہچکچاہٹ کو دیکھا۔ اس نے مجھے ”سر” سے مخاطب کیا۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا مجھے مدد کی ضرورت ہے۔ میں نے “ہاں” میں جواب دیا، اور پھر میں نے اس سے پوچھا، “پکے ہوئے کو کیسے چیک کریں؟ اس نے کہا کہ اس کے جسم پر دو سفید دھاریوں کے درمیان کے وقفے کی پیمائش کریں اگر فاصلہ دو انگلیوں کے برابر ہے تو یہ پک چکا ہے۔ میں نے پیمائش کی یہ تکنیک سیکھی، اور مختلف دنوں میں اس سیکھنے کو چند بار آزمایا۔ بعد میں، میں اس کے بارے میں بھول گیا۔7 اکتوبر تک میں نے تربوز کے بارے میں نہیں سوچا تھا لیکن یہ غصے اور آواز کے ساتھ واپس آیا، نیویارک کی سڑکوں پر تربوز کے سینکڑوں جھنڈوں، احتجاج کے جھنڈے دیکھ کر مجھے مسلسل پکے ہوئے تربوز کی یاد آ رہی تھی۔ میں انہیں تقریباً ہر ہفتہ اور اتوار کو دیکھتا ہوں، وہ نیویارک کے تمام بورو میں ہیں ، احتجاجی ریلیوں میں ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ فلسطین کے جھنڈے اٹھائے ہوئے ہیں جو احتجاج کی علامت ، احتجاج کے رنگ ہیں۔ یہ احتجاج مزاحمتی جدوجہد کی ایک بھرپور تاریخ رکھتا ہے اور اس کا اظہار کئی عملی شکلوں میں ہوتا ہے اگر ہم ان کے احتجاج کی تاریخ پر نظر ڈالیں جس کا اظہار مختلف شکلوں میں ہوا تو ہم دیکھیں گے کہ چند کروڑ کی قوم نے ظالموں کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلسل احتجاج کی شکلیں ایجاد کیں جس میں تربوز بھی ایک ہے۔1967 میں اسرائیل کی حکومت نے فلسطینی پرچم پر پابندی لگا دی، مغربی کنارے، غزہ اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کرنے کے بعد، اسرائیل کی حکومت نے غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی پرچم کی نمائش پر پابندی کے لیے ایک فوجی حکم نامہ استعمال کیا۔ فلسطینیوں کو اپنا قومی پرچم دکھانے کی اجازت نہیں تھی لیکن اس نے فلسطینیوں کو چار رنگوں سرخ، سبز، سفید اور سیاہ رنگوں والے تربوز پکڑنے سے نہیں روکا۔ جب تربوز کو ٹکڑوں میں کاٹا جاتا ہے، تو ہر ٹکڑا فلسطینی پرچم کا رنگ دکھاتا ہے، تربوز کا گودا سرخ، بیج سیاہ ہوتے ہیں، رند سفید ہوتاہے اور بیرونی جلد سبز ہوتی ہے، فلسطینیوں کے حب الوطنی کے رنگ تربوز کو سب سے پہلے 1967 میں فلسطینیوں کے احتجاج کے علامتی اظہار کے طور پر استعمال کیا گیا تھا اور آج بھی اس کا استعمال جاری ہے۔ اسرائیل نے اوسلو معاہدے کے تحت 1993 میں جھنڈے پر پابندی اٹھا لی تھی۔ پرچم کو فلسطینی اتھارٹی کی نمائندگی کے طور پر قبول کیا گیا، فلسطینی آج بھی اپنی تحریک کو جاری رکھے ہوئے ہیں، ان کے جذبات اور حب الوطنی میں ذرا برابر بھی کمی نہیں آئی ہے، اب دیکھنا ہے کہ عالمی برادری اور انصاف کے ادارے اسرائیلی فورسز کے ظلم و جبر کو کتنی دیر تک برداشت کرتے ہیں۔
٭٭٭