آج کا مسئلہ!!!

0
680
مفتی عبدالرحمن قمر
مفتی عبدالرحمن قمر

موجودہ دور میں دنیا واقعی ایک انگلی کی مار ہے۔انٹرنیٹ نے معلومات کے انبار لگا دیئے ہیں۔معلومات کے انبار نے وسائل کم اور مسائل زیادہ پیدا کردیئے ہیںاور آدمی اس معلوماتی دنیا میں خود کو تنہا تنہا محسوس کرنے لگا ہے۔پرانے زمانے میں لوگ جب مسائل کا شکار ہوتے تھے یا تو مسجد کا رخ کرتے دو رکعت نماز جاحت پڑھتے اور اپنا مسئلہ اللہ کی بار گاہ میں پیش کرتے پھر مطمئن ہوکر باہر نکلتے اس یقین کے ساتھ میرا مسئلہ حل ہوجائیگا یا کسی بزرگ یا نیک انسان کی طرف جاتا۔ان کی صحبت میں بیٹھ کر دعا کراتا پھر اس یقین کے ساتھ اُٹھتا کہ میں نے اللہ کے نیک بندے سے دعا کرائی ہے۔اب میرا مسئلہ حل ہوجائیگالیکن اب یہ دونوں راستے ہم ترک کرچکے ہیں۔ہم اب اپنا مسئلہ گوگل اور یوٹیوب کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں۔وہاں غامدی جیسے لوگ مسائل کا حل بتانے کی بجائے مساجد اور علماء سے دوری اور بابوں کے خلاف نفرت کا سبق پڑھاتے ہیں۔جس کی وجہ سے مسئلہ پوچھنے والا مزید اُلجھ جاتا ہے۔دن بدن اس کی گولیوں میں اضافہ رہا ہے۔بلڈپریشر اور شوگر کی زیادتی اسے مزید اُلجھا رہی ہے۔میرا جوان نواسہ دنیاوی تعلیم سے آراستہ ایک مسئلے کے حل کیلئے دو سال تک غامدی اور انجینئر کے چکر میں اُلجھا رہا۔بالاخر تنگ آکر مجھ سے رابطہ کیا۔نانا ابو مجھے اس اُلجھن سے نکالیں میرا سکون برباد ہوگیا ہے۔رات کو نیند نہیں آتی، ہم نے کہا بیٹاہمارے پاس پرانا نسخہ ہے۔وضو کرو،دو رکعت نماز نفل برائے حاجت پڑھو۔اللہ سے دعا کرو۔رات کو گہری نیند آئے گی کیونکہ ہمارا بنانے والا ہی ہماری کمی بیشی جانتا ہے۔عشاء کی نماز پڑھ کر جلدی سوجانا،صبح اُٹھ کر نماز پڑھو۔الارم لگا لو چند دن بعد خود بخود جاگ آجائیگی۔باب کے لئے اس کو کہیں نہیں جانا پڑا ،گھر میں ہی موجود تھا۔بابے نے راستے پر بھی لگا دیا۔بچہ پرسکون ہوگیا۔موجودہ دور عدم تحفظ اور غربت اور معاشی بدحالی کا ہے۔خوشحالی کا سامان خرید کر ہم خود بے حال ہوجاتے ہیں۔سرکار دوعالم نے ان مسائل سے نکلنے کے لئے ایثار کا درس دیا تھاجس دن ایثار کا راستہ اپنا لیا اس دن ہم مسائل سے نکل جائیں گے۔اہل بیت نبوت کا ایک فرد سفر پر تھا۔ایک مقام پر پڑائو ڈالا۔وہاں ایک گڈریا بیٹھا کھانے کے لئے اپنا برتن کھولا،ایک کتا آگیا۔اس گڈریا نے ایک روٹی اس کو ڈال دی۔کتا کھا کر بیٹھا رہا۔اس نے دوسری روٹی بھی ڈال دی۔کتا کھا کر چلا گیا۔امام صاحب نے آگے بڑھ کر پوچھا اب تم کیا کرو گے۔اس نے کہا اس علاقے میں کتا نہیں ہوتا،مسافر تھا۔اس لئے میں نے اپنا کھانا ایثار کر دیا،میں تو روز کھاتا ہوں۔ایک دن نہ سہی۔مگر امام صاحب اس وقت جو مجھے خوشی ہو رہی ہے۔وہ میری بھوک سے زیادہ ہے۔ایثار انسان کو وہ خوشی عطا کرتا ہے۔جو آپ کو گوگل اور یوٹیوب پر نہیں ملے گی۔ہمیں واپس لوٹنا ہوگا۔وہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی۔سرکار دو عالم ۖنے حضرت عمر اور حضرت علی رضوان اللہ علیھم اجمعین کو اپنا کرتہ دیکر ایک بابے کے پاس بھیجا تھا۔جس کا نام اویس قرنی تھا سو میرے پیارے بچو ہماری مشکلات کا حل ہماری واپسی پر منسلک ہے۔لوٹ آئو۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here