پارلیمانی جمہوریت ”اکثریت” کو فیصلے کرنے کا اختیار دیتی ہے تو ”اقلیت”کو بات کرنے، اختلاف کرنے، تنقید کرنے اور احتجاج کرنے کا حق دیتی ہے۔جب ”اکثریت” بات یا احتجاج کرنے کا حق ”اقلیت” سے چھین لیتی ہے تو اسے ” فسطائیت ”کہتے ہیں اور یہ کام ہمیشہ نالائق ”اکثریت”کرتی ہے۔یہ الفاظ میں نے پاکستان کے ایک ہے سابق بیوروکریٹ ظفر حجازی کی وال پر پڑھے تو دل میں سوچا ہمارا ملک کس ڈگر پر چل نکلا ہے، پارلیمنٹ میں بجٹ سیشن کے دوران جو کچھ ہوا پوری قوم اس پر رونا رو رہی ہے مگر ہمارے سیاستدانوں کو قطع پروا نہیں، انہوں نے ایک لمحہ بھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ ان کی گالم گلوچ اور لڑائی جھگڑے کا عوامی ذہنوں پر کیا تاثر جائے گا۔اگر پارلیمنٹ کے بجٹ پر نظر ڈالی جائے تو یہ کروڑوں روپے سالانہ بنتی ہے جس میں اصولی طور پر تو عوامی مسائل کو اجاگر کرنا اور عوامی مسائل کے حل کے لیے تجاویز پیش کرنا بنیادی ایجنڈے میں شامل ہے مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے کروڑوں روپے خرچ ہونے کے باوجود عوامی مسائل کے حل کے لیے تجاویز ملنے کی بجائے نالائق سیاست دانوں کی جانب سے یہ خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ آج فلاں نے فلاں کے ساتھ جھگڑا کیا، فلاں نے فلاں کو گالیاں دیں۔بات صرف ہمارے اپنے ملک کے لوگوں کی نہیںبلکہ دنیا بھر میں ہمارے امیج کا کیا بنا، آج ہمارے پارلیمنٹ نے ثابت کر دیا کہ ہمارے سیاستدان بھی کسی تھرڈ ورلڈ کنٹری کے سیاستدانوں سے کم نہیں، جہالت کی انتہا کو چھو رہے ہیں، یقین جانیئے ایسا تو وہ لوگ بھی ایک دوسرے کے ساتھ نہیں کرتے جو ان پڑھ کہلاتے ہیں۔اگر دیکھا جائے تو یہ ہماری اقدار کی گرتی ہوئی ایک مثال ہے، ہماری روایت دم توڑتی جارہی ہیں، اخلاق سے پیش آنے کی وجوہات کم ہوتی جا رہی ہیں، ان تمام چیزوں پر تشویش اس لیے ہوتی ہے کہ یہ پارلیمنٹ سے نکل کر اب عوامی اور مقامی لوگوں میں بھی سمانے کا بڑی حد تک خدشہ موجود ہے۔سیاستدان رہنماؤں کی جانب سے نکلے ہوئے الفاظ بعد میں مقامی اور گلی محلے کے سیاستدانوں کی زبان کی زینت بنتے ہیں۔وہاں ایک نے ایک کو گالی نکالی گلی محلوں میں سونے کو گالیاں نکالیں گے، پارلیمنٹ میں ایک ہاتھ دوسرے کے گریبان تک پہنچاتو گلی محلے میں 200 ہاتھ دو سو گریبانوں کے گرد ہوں گے۔عمران خان کہا کرتے تھے کہ اوپر آدمی ٹھیک ہو تو نیچے نظام خود بخود ٹھیک ہو جاتا ہے، بلاشبہ یہ بات سو فیصد درست ہے مگر یہاں تو کہانی ہی اُلٹی طرف چل پڑی ہے۔وزیراعظم عمران خان کی زبان درازی اور بد تمیزی سے بات کرنے کی کئی مثالیں موجود ہیں، بطور رپورٹر جب ہم پاکستان تحریک انصاف کا دھرنا اسلام آباد میں کور کر رہے تھے تو ایک بار اتفاقا عمران خان صاحب کا انٹرویو کرنے کے لیے کنٹینر میں جانے کا شرف حاصل ہوا جہاں موصوف شریں مزاری کو انتہائی تہذیب سے گالیاں عطا فرما رہے تھے، کیا عمران خان صاحب کو یہ پسند ہے کہ ان کی جماعت گالم گلوچ کے کلچر کو فروغ دے اگر انہیں یہ شوق پورا کرنا ہے تو بالکل پورا کریں مگر یقین رکھیئے کہ اس سے قوم کے ہر گلی محلے میں ایک دن ہر ہاتھ دوسرے کے گریبان پر ہوگا اور قوم کی سیاسی بدحالی کی ذمہ داری تاریخ میں عمران خان کے نام لکھی جائے گی۔
٭٭٭