باپ کی جمع کیا ہے!!!

0
361
مفتی عبدالرحمن قمر
مفتی عبدالرحمن قمر

ایک نوجوان نے سوال لکھ بھیجا، مفتی صاحب باپ کی جمع کیا ہے یا والد کی جمع کیا ہے، ماں سے مائیں، بیٹی سے بیٹیاں، بیٹے مگر والد اور باپ کی جمع ہماری اردو زبان میں نہیں ہے۔ عربی میں اب کی جمع آباد آتی ہے انگریزی میں ایس آخر میں لگانے سے جمع بن جاتی ہے اس کی حکمتیں تو کئی ہونگی لیکن جو حکمت میری سمجھ میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے اس دنیا کو بسانے سے پہلے صرف اکیلے باپ کو پیدا کیا پھر اس باپ سے دنیا کو آباد کیا اس لیے شاید باپ واحد ہے اس کی جمع نہیں ہے اور ویسے بھی ہماری سوسائٹی میں ماں کو فوقیت دی جاتی ہے۔ یہ غلط بھی نہیں ہے، اللہ و رسولۖ نے ماں کو باپ سے تین درجے زیادہ عطاء کئے ہیں مگر باپ کی مثال سو سنار کی ایک لوہار کی والی ہے مثلاً فرمان نبویۖ ہے اللہ کی رضا باپ کی رضا میں ہے۔ اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر نے ایک خاتون سے نکاح کیا، حضرت عمر اگرچہ اس رشتے پر راضی نہیں تھے۔ سرکار دو عالمۖ کو پتہ چلا تو آپۖ نے حضرت عبداللہ بن عمر کو بلایا اور پوچھا آپ میری اُمت کے معلم ہیں، یہ بتائو کہ اگر اللہ کی رضا کس کی رضا میں ہے حضرت عبداللہ بن عمر نے عرض کی حضورۖ اللہ و رسول اعلم، آپۖ نے فرمایا عبداللہ اللہ کی رضا باپ کی رضا میں ہے اور یہ خاصۂ باپ ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر نے گھر جا کر اُسی وقت اس خاتون کو طلاق دیدی اور عرض کی اے اللہ مجھے آپ کی رضا مطلوب ہے چونکہ آپ کی رضا باپ کی رضا میں ہے ،سو میں نے اس عورت کو طلاق دے کر باپ کی رضا حاصل کر لی ہے، اے اللہ تو بھی مجھ سے راضی ہو جا۔ باپ ہوتا کیا ہے شفقت، محبت اور ایثار کا مجموعہ ہے۔ باپ وہ ہستی ہے جو اپنا سب کچھ ہار کر بھی آپ کی جیت کو یقینی بناتا ہے پھر اس پہ کسی اجر کا طالب نہیں، باپ وہ سایہ دار درخت ہے خود تو دھوپ میں کھڑا ہوتا ہے مگر ہمیں سایہ فراہم کرتا ہے۔ سرکار دو عالمۖ کے زمانے میں ایک نوجوان نے ا پنے بوڑھے باپ کی شکایت کر دی کہنے لگا یا رسول اللہ میرا باپ رات کو میری جیب سے پیسے نکال لیتا ہے سرکار دو عالمۖ نے اس بزرگ کو بلایا، عرب فطری طور پر شعر و سخن سے تعلق رکھتے ہیں۔ راہ چلتے ہوئے اس بزرگ نے اپنے بیٹے کا بپچن یاد کرکے کچھ اشعار کہے اشعار دل میں ہی تھے جس کا مفہوم یہ تھا اے میرے بیٹے تم نے بہت بُرا کیا کہ میری شکایت کر دی کاش تم نے سوچا ہوتا کہ میں نے کس قیامت سے گزر کر پالا ہے میں جو کماتا تھا لا کر تیرے قدموں میں ڈھیر کر دیتا تھا۔ جب سے میرے ہاتھوں میں رعشہ ہوا ہے تم نے ہر چیز مجھ سے چھپانی شروع کر دی ہے۔ اے میرے بیٹے کیا پالا میں نے تجھے ہے ،اپنی ضرورتوں کیلئے میں کسی دوسرے کا دروازہ کھٹکھٹائوں، میں کہاں جائوں، جب سرکار دو عالمۖ کی بارگاہ میں پہنچے، جبرائیل امین نے خبر دی یارسول اللہ وہ جو شعر جو اس نے کہا ہے وہ سنائے بزرگ حیران ہو گیا یارسول اللہ ابھی تک تو میرے کانوں کو بھی نہیں پتہ میں نے دل میں کہے ہیں آپۖ نے فرمایا مجھے جبرائیل امین نے بتا دیا ہے بزرگ نے شعر سنائے سرکار دو عالمۖ کی آنکھیں شعر سن کر بھر آئیں۔ آپۖ اُٹھے اور نوجوان سے فرمایا تو مال کی شکایت لے کر آیا ہے تو بھی اور تیرا مال بھی دونوں باپ کی ملکیت ہیں سو میرے بچو، بھائیوں، ساتھیوں باپ کو پہچانو سرکارۖ نے فرمایا جنت کا صدر دروازہ باپ کی رضا کیساتھ ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here