محترم قارئین کرام آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا نقوی کا سلام پہنچے ماہ رمضان کے آخری عشرے کی برکات کیلئے آپ سب کے حق میں دعا گو ہوں آپ کو اللہ پاک آسانیاں عطا فرمائے اور رزق حلال کی ساتھ اللہ پاک کے احکام بجالانے کی توفیق عطا فرمائے ہمارا سلام ان علمائے حق پر جن کی وجہ سے آج اسلام کی تعلیمات ہم تک پہنچیں اور ہم اس پر عمل پیرا ہیں ۔
آج آپ کو مولانا غوث ہزاروی صاحب کی داستان پڑھنے کو ملیگی جو انٹرنیٹ پر وائرل ہے اور اس میں موجود سبق ہم کو یاد دلاتا ہے کس طرح علمائے کرام نے سختیاں برداشت کیں اپنی زندگی گھر والوں کی زمہ داری سے آنکھیں کچھ وقت کیلئے بند کیں لیکن اپنا کام کرتے رہے جو انکو کرنا تھا بس کلمہ گو جان لیں جب تک وہ اپنے ذمہ کام دینی ہو یا دنیاوی ایمانداری سے کریں گے وہ کامیاب ہیں سرخرو ہیں اور جب وہ صرف دنیا داری میں پڑ گئے تو انکا زوال شروع ہر لحاظ سے معاشی بھی اور معاشرتی بھی ۔
اب مولانا کی قربانی سنئیے جو مندرجہ زیل ہے! آپ کا بیٹا آج شام تک کا مہمان ہے اس کا کوئی علاج نہیں ڈاکٹر کے یہ الفاظ سن کر مولانا رو پڑے اپنے بیٹے کو گھر لے آئے گھر میں کھڑے اپنے بیٹے کی تیمارداری کر رہے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی مولانا دروازے پر گئے باہر ایک بوڑھے شخص کو کھڑے پایا حضرت نے سلام و دعا کے بعد پوچھا بابا جی خیریت سے آئے ہو؟ وہ کہنے لگا خیریت سے کہاں آیا ہوں ہمارے علاقے میں ایک راسخ العقیدہ مبلغ آیا ہوا ہے وہ لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے۔۔ پوری امت گمراہ ہو رہی ہے اور آپ گھر میں کھڑے ہیں۔۔ مولانا نے جیسے ہی یہ بات سنی آپ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے بیوی سے فرمایا بی بی میرا بیگ کہاں ہے؟ بیوی نے بیگ اٹھا کر دیا اور آپ بیگ ہاتھ میں پکڑے گھر سے روانہ ہونے لگے بیوی نے دامن پکڑ لیا اور کہنے لگی مولانا خر لمحات میں اپنے نوجوان بیٹے کو اس حالت میں چھوڑ کر جا رہے ہو؟ مولانا نے آسمان کی طرف نظریں اٹھائیں اور رو کر روانہ ہونے لگے تو جاں بلب بیٹے نے کہا ابا جان! میں آج کا مہمان ہوں چند لمحے تو انتظار کر لیجئے میری روح نکل رہی ہے مجھے اس حال میں چھوڑ کر جا رہے ہو؟ مولانا نے اپنے نوجوان بیٹے کو بوسہ دیا رونے لگے اور فرمایا اے بیٹے! بات یہ ہے کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی خاطر جا رہا ہوں کل قیامت کے دن حوض کوثر پر ہماری تمہاری ملاقات ہو جائیگی۔ یہ فرمایا اور گھر سے روانہ ہو گئے ۔ اڈے پر پہنچے ابھی بس میں بیٹھے ہی تھے کہ چند لوگ دوڑے آئے اور کہنے لگے مولانا آپکا بیٹا فوت ہو چکا ہے اس کا جنازہ پڑھاتے جائیں مولانا نے آسمان کی طرف نظریں اٹھائیں اور رو کر فرمانے لگے جنازہ پڑھانا فرض کفایہ ہے اور امت محمدیہ کو گمراہی سے بچانا فرض عین ہے فرض عین کو چھوڑ کر فرض کفایہ کی طرف نہیں جاسکتا۔ پھر وہاں سے روانہ ہو گئے اس علاقے میں پہنچے اللہ تعالی نے کامیابی عطا کی وہ راسخ العقیدہ مبلغ بھاگ گیا . مولانا تین دن کے بعد گھر واپس پہنچے بیوی قدموں میں گر گئی اور رو کر کہنے لگی مولانا جب آپ جا رہے تھے تو بیٹا آپکی راہ تکتا رہا اور کہتا رہا جب ابا جان واپس آئیں تو انھیں میرا سلام عرض کر دینا مولانا نے جب یہ سنا تو فورا اپنے بیٹے کی قبر پر گئے اور دعا مانگنے لگے اے اللہ! ختم نبوت کے وسیلے سے میرے بیٹے کی قبر کو جنت کا باغ بنا دے مولانا دعا مانگ کر گھر واپس آئے تو رات بیٹے کو خواب میں دیکھا بیٹے نے اپنے ابا سے ملاقات کی اور کہا کہ محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رب کی قسم! ختم نبوت کے وسیلے سے اللہ تعالی نے میری قبر کو جنت کا باغ بنا دیا ہے۔ ختم نبوت کے اس مجاہد کو دنیا حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحم اللہ کے نام سے جانتی ہے ایسے تھے ہمارے اکابر جنہوں نے ناموس رسالت کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا….. اے اللہ جو اسے لائک اور شیئر کرے اس کی تمام مشکلات دور فرما اور اس کو ضرور جنت میں داخل فرمانا اے اللہ ان کے وسیلے سے ہماری بھی مغفرت فرمانا آمین
اس تحریر میں شیئر کرنے کی وجہ سے اس میں میری دلچسپی بڑھی اور اپنے مختصر تجزیئے کے ساتھ اس کو قارئین کرام کی نظر کردیا کیونکہ رمضان کے آخری عشرہ مغفرت میں اس سے بڑھ کر تحفہ کیا ہوگا کہ کلمہ گو اپنے بنیادی اسلامی عقائد پر کاربند رہیں اور آپس میں محبت بھاء چارہ اور اس دنیا کی زندگی میں مذھب کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر دنیا و آخرت میں کامیاب ہوں آمین
٭٭٭